ہماری ایک تجارتی کمپنی ہے جو کہ دوائیاں تیار کرتی ہے۔ ہمیں اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کیلئے اشتہار تیار کروانے کی ضرورت ہے۔ آج کل انڈسٹری میں یہ ذہن بن گیا ہے کہ عورت کی تصویر کے بغیر اشتہار کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ اشتہار سے متعلق ہم نے یہی سن رکھاتھا کہ کسی بھی خاتون کی تصویر اشتہار میں شامل نہیں کیا جاسکتی، لیکن ہمارے ہاں مارکیٹنگ کے ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ”غیر مسلم عورت کوویڈیو اشتہار میں شامل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ پردے کے احکام صرف مسلمان عورتوں سے متعلق ہیں۔ غیر مسلم عورت پر پردے کے احکام لاگونہیں ہوتے۔ لہذا غیر مسلم (ہندو، عیسائی، خواتین وغیرہ )کو شامل کر کے ایڈور ٹائز بنا لیا جائے تو جائز ہو گا۔ ہمارے لئے یہ بات نئی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی یہ بات کس حد تک درست ہے؟ چنانچہ آپ سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے صحیح شرعی حکم سے آگاہ فرما کر درج ذیل سوالات میں رہنمائی فرمائیں :
1. کیا غیر مسلم عورت پر پر دے کے احکام لاگو نہیں ہوتے؟
2. اگر غیر مسلم خواتین کیلئے پر دے کے احکام نہیں ہیں تو کیا ہم ان کو اپنی کمپنی کے اشتہارات میں دکھا سکتے ہیں؟
3. اگر کسی ایسی مسلمان خاتون کو ویڈیو اشتہار میں شامل کیا جائے جس نے اسکارف تو پہنا ہوا ہو البتہ چہرہ کھلا ہوا ہو تو شرعاً کیا حکم ہو گا؟ دراصل اشتہارات میں چہرے کے تاثرات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
از راہ کرم اس کی وضاحت فرمادیں، تاکہ اگر غیر مسلم عورت کو اشتہار میں دکھانے کی اجازت ہو تو پھر ہم اس کے مطابق اشتہار تیار کروا سکیں کیونکہ انڈسٹری کا مقابلہ کرنے کیلئے اس بات کی شدید ضرورت ہے۔
1،2) ۔۔۔ غیر مسلم عورت کی تصویر یاویڈیو پر مشتمل اشتہار بنانا جائز نہیں۔ کیونکہ غیر مسلم اگرچہ احکام شرع کے مکلف نہیں، لیکن مسلمان ملک میں رہتے ہوئے کسی اسلامی حکم کی علی الاعلان خلاف ورزی کرنے کی غیر مسلم کوبھی اجازت نہیں ہے۔ لہذا اسلامی معاشرہ میں بے پردگی کے ساتھ اپنے محاسن اس طرح ظاہر کرنا کہ جس سے لوگ فتنہ میں مبتلا ہوں، غیر مسلم عورت کیلئے بھی ممنوع ہے۔ اور دوسری طرف قرآن و سنت کی نصوص میں مسلمان مردوں کو اپنی نظروں کی حفاظت کا حکم ہے اور مطلقاً اجنبیہ عورتوں کی طرف دیکھنے کی ممانعت ہے خواہ وہ اجنبیہ مسلم ہو یاغیر مسلم۔
(3)۔۔۔ائمہ اربعہ میں سے حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک چہرہ کا بھی پردہ ہے اور غیرمحرم کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ اور حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک چہرہ اگرچہ فی نفسہ حجاب میں داخل نہیں،لیکن اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو چہرہ کا پردہ بھی ضروری ہے۔ آج کل فتنہ کا زمانہ ہے اور نامحرم جوان عورت کا چہرہ چونکہ مجمع المحاسن ہوتا ہے ، اور اس کے کھلا رکھنے میں فتنہ کا اندیشہ زیادہ ہے اس لئے دیگر ائمہ کی طرح متاخرین فقہاء حنفیہ کافتویٰ بھی یہی ہے کہ عام حالات میں چہرہ کا چھپانا ہی ضروری ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں ویڈیو اشتہار میں خاتون کا چہرہ دکھانا جائز نہیں ہے۔
مصنف عبد الرزاق الصنعاني - (6/53)
٩٩٨٤ - عبد الرزاق قال: أخبرنا معمر عن الزهري، عن ابن المسيب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يجتمع بأرض العرب، أو قال: بأرض الحجاز دينان "عمرقال: ففحص عن ذلك عمر حتى وجد عليه الثبت قال الزهري فلذلك أجلاهم .قال الزهري: وكان عمر لا يترك أهل الذمة أن يقيموا بالمدينة فوق ثلاثة أيام إذا أرادوا أن يبيعوا طعاما، وتؤمر نساء اليهود والنصارى أن يحتجين ويتحلين "
شرح السير الكبير للسرخسي - (1532)
وقد بينا في المبسوط أن أهل الذمة يمنعون من إظهار بيع الخمور والخنازير في أمصارالمسلمين، ومن إدخال ذلك في الأمصار على وجه الشهرة والظهور . هكذا نقل عن عمروعلي - رضي الله عنهما -: ولأن هذا فسق، وفي إظهار الفسق في أمصار المسلمين استخفاف بالدين، وما صالحناهم على أن يستخفوا بالمسلمين.
فتح الباري لابن حجر - (6/191)
قوله: (باب إذا اضطر الرجل إلى النظر في شعور أهل الذمة، والمؤمنات إذا عصين الله، وتجريدهن) أورد فيه حديث علي في قصة المرأة التي كتب معها حاطب إلى أهل مكة، ومناسبته للترجمة ظاهرة في رؤية الشعر من قوله في الروايات الأخرى فأخرجته من عقاصها، وهي ذوائبها المضفورة، وفي التجريد من قول علي: لأجردنك.... قال ابن المنير: ليس في الحديث بيان هل كانت المرأة مسلمة أو ذمية، لكن لما استوى حكمها في تحريم النظر لغير حاجة شملهما الدليل. وقال ابن التين: إن كانت مشركة لم توافق الترجمة، وأجيب بأنها كانت ذات عهد فحكمها حكم أهل الذمة.
البيان والتحصيل لابن رشد المالكي - (4/187)
مسألة وسئل ابن القاسم: عن نساء أهل الذمة الذين أخذوا عنوة مثل أهل مصر هل يحل للرجل أن ينظر إلى شعورهن؟ فقال: لا يحل لمسلم أن ينظر إلى شعورهن ولا إلى شيء من عوراتهن، فقيل له: أليس هن بمنزلة الإماء؟ قال لا: بل هن حرائر؛ لأن دية من قتل منهن خمسمائة، ومن أسلم منهن كان حرا، فهن أحرار يحرم منهن ما يحرم من الأحرار.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (81/1)
وجميع بدن الحرة عورة إلا وجهها وكفيها لقوله - عليه الصلاة والسلام - «بدن الحرةكلها عورة إلا وجهها وكفيها»…..وفي المنتقى تمنع الشابة عن كشف وجهها لئلا يؤدي إلى الفتنة وفي زماننا المنع واجب بل فرض الغلبةالفساد.و الله سبحانه وتعالى الاعلم بالصواب