ہمارا ایک مینو فیکچرنگ ادارہ ہے، جس میں مختلف اجزائے ترکیبی ملا کر پروڈکٹ تیار کی جاتی ہے اور پھر ان پروڈکٹس کو مارکیٹ میں عام گاہک تک پہنچاکر نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ تیار شدہ مال کو مختلف قسم کے پیکٹس میں پیک کیا جاتا ہے اور بعض اوقات مصنوعات کی شناخت یا کاروباری ضرورت کیلئےپیکٹ کے اوپر کوئی تصویر بنانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات ہیں، ان کے جوابات دے کر ممنون فرمائیں۔ کہ کونسی تصویر بنانا یا پیکٹ پر چھاپنا در ست ہو گا اور کونسی نہیں ؟
1. ہمیں اس ضابطے سے آگاہ فرمائیں کہ چہرے کا کس قدرحصہ یاکون کون سے اعضاء نظرآنے پر تصویر کا حکم لگایا جائے گا؟اورچہرے کے کون کون سے اعضاءمٹانے سے تصویر حرمت کی حد سے نکل جائے گی؟
2. اگر کسی مکمل چہرے والی تصویر کے ناک، منہ ،آنکھوں پر قلم پھیر دیا جائے یا ان اعضاء کو غیر واضح کردیا جائے تو کیا یہ تصویر ممانعت سے نکل جائے گی؟
3. اگر کسی تصویر کا کچھ حصہ کاٹ دیا جائے مثلاًناک سے اوپر والا حصہ کاٹ دیا جائے اور کسی درجہ میں کان نظر آرہے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟
4. اگر کسی تصویر کا کچھ حصہ کاٹ دیا جائےاور ناک سے اوپر والا حصہ کاٹ دیا جائے اور آنکھیں اور کان نظر نہ آرہے ہوں البتہ ناک اور منہ نظر آرہے ہوں تو کیا حکم ہے؟
5. اگر کسی تصویر کا منہ سے اوپر والا حصہ کاٹ دیا ہو اور صرف منہ نظر آرہا ہو تو کیا حکم ہے؟
6. کسی تصویر کا افقی اندازمیں آدھا حصہ کاٹ دیا جائے اور باقی صرف ایک آنکھ، کان ، آدھا ناک اور آدھا منہ نظر آرہا ہو اور چہرے کا آدھا حصہ نظر نہیں آرہا ہو تو ایسی تصویر کا کیا حکم ہے؟
7. اگر کسی تصویر کےچہرے کا نیچے والا حصہ کاٹ دیا جائے مثلا منہ اور ناک تک کا حصہ کاٹ دیا جائے البتہ آنکھیں اور کان وغیرہ نظر آئیں تو ایسی تصویر کا کیا حکم ہے ؟
8. ہماری پر وڈکٹ میں ایک ایسا پیکٹ بھی ہے جس پر مچھلی کی تصویر بنی ہوئی ہے ،کیا یہ بھی تصویر کے حکم میں آئے گا ؟ جبکہ اس میں اگرچہ مچھلی کی آنکھ کے ساتھ اس کا منہ اور ناک بھی نظر آرہا ہے، تاہم ناک اور منہ بہت زیادہ واضح نہیں، کیا یہ ٹھیک ہے یا اس کو مزید غیر واضح کردیا جائے ؟ اور آنکھ مکمل طور پر باقی رہےاور باقی منہ اور ناک کو مدھم کردیا جائے توایسی صورت میں کیا حکم ہوگا؟
(1)۔۔۔ احادیث صحیحہ اور حضرات فقہاء کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کٹی ہوئی تصویر شرعاً جائز ہےاور احادیث میں ایسی تصویر کو کہیئۃ الشجر " کے الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے، یعنی سر کٹی ہوئی تصویر کی چونکہ جاندار کےساتھ مشابہت ختم ہو جاتی ہے اس لئے ایسی تصویر ، ناجائز تصویر کے حکم میں نہیں ہے، البتہ اگر مکمل سر نہ کاٹا جائےبلکہ آدھا سر کاٹ دیا جائے، یعنی صرف چہرے کے دو اعضاء یا ایک عضو کاٹ دیا جائے تو وہ ناجائز تصویر کے حکم میں ہو گی یا نہیں؟
اس کے متعلق حضرات فقہاء حنفیہ کے کلام میں کوئی صراحت نہیں ملی، البتہ فقہاء مالکیہ سمیت دیگرفقہاء کرام کے کلام میں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے جس کی تصریح علامہ شامی نے بھی فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ"ایسی ناقص تصویر جس میں ذی روح کے لئے مدارِ حیات اعضاء میں سے کوئی عضونہ ہو تو وہ ناجائز تصویر کے حکم میں نہیں ہے“اس ضابطہ کے تحت دیگر فقہاء کرام کے نزدیک منسلکہ تصاویر نا جائز تصویر کے حکم میں نہیں ہیں، لیکن حنفیہ نے اس قول کو نہیں لیا، کیونکہ متعدد احادیث میں الصورة الراس“ کے الفاظ آئے ہیں، لہذا حنفیہ کے نزدیک نصف اعلیٰ کی تصویر بھی ناجائز تصویر کے حکم میں ہے۔
البتہ اب سوال یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اس حکم (الصورةالراس) کا اطلاق اس وقت بھی ہو گا جب مکمل سر نہ کاٹا جائے، بلکہ آدھا سر کاٹ دیا جائے ؟ یعنی چہرے کے اعضاء میں سے ایک یا دو اعضاء اگر ختم کر دیئے جائیں توایسی تصویر، ناجائز تصویر کے حکم میں ہوگی یا نہیں؟حتی الوسع تلاش کے باوجود حضرات فقہاء حنفیہ کے کلام میں اس کی صراحت نہ مل سکی اور نہ ایسی کوئی نظیرملی جس کو بنیاد بنا کر ایسی تصویر کے متعلق کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکے، تاہم اتنی بات تو واضح ہے کہ جس تصویر کےسر کا اکثر حصہ کاٹ دیا جائے اور چہرے کے اعضاء میں سے صرف ایک عضو باقی رہ جائے جیسا کہ تصویر نمبر 5 میں ہے تو ایسی تصویر عدم جواز کی حد سے نکل جائے گی، البتہ اگر سر کا نصف حصہ کاٹ دیا جائے اور نصف حصہ باقی ہو جیسا کہ ناک سے اوپر والا حصہ کاٹ دیا جائے تو ایسی تصویر کو یقینی طور پر ناجائز تصویر کہنا تو مشکل ہے، البتہ مشکوک ضرور ہے اس لئے ایسی تصویر کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے۔
(2)۔۔۔ تصویر نمبر 1نا جائز تصویر کے حکم میں نہیں ہے، البتہ تصویر نمبر 2 مشتبہ ہے اس لئے اس کو مزید مدھم کیاجائے اور مزید مدھم کرنے کے بعد ایسی تصویر کو پیکٹ کے اوپر چھاپنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
(3تا 7)۔۔۔ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق تصویر نمبر 5 نا جائز تصویر کے حکم میں نہیں ہے ، اس لئے اس کو پیکٹ کے اوپر چھاپنے میں بھی شرعاً مضائقہ نہیں البتہ تصویر نمبر 3،4،6،7کو ناجائز تصویر کہنا تو مشکل ہے لیکن یہ تصاویر مشکوک و مشتبہ ضرور ہیں، لہذا ایسی حالت میں ان کو پیکٹ کے اوپر چھاپنے سے اجتناب کیا جائے۔
(8)۔۔۔ مچھلی کا منہ اور ناک چونکہ خلقۃً غیر واضح ہیں، اس لئے مچھلی کا صرف منہ اور ناک مزید مدھم کرنے سے وہ تصویر عدم جواز کی حد سے نہیں نکلے گی البتہ اگر ناک اور منہ سمیت آنکھ کو بھی اس طرح مدھم کیا جائے جیسا کہ تصویر نمبر 2 کے متعلق کہا گیا تو پھر یہ ناجائز تصویر کے حکم میں نہیں ہو گی۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/2855)
أما الأول فلأنه إذا محي الرأس وما به من صورة الوجه المتميز به، فلا شك أنه يصير على هيئة الشجرة وهو أمر مشاهد، وأما الثاني ; فلأنه خلاف المذهب، ففي فتاوى قاضيخان، يكره أن يصلي وبين يديه أو فوقه أو عليه، أو يساره أو ثوبه تصاوير. وفي البساط روايتان، والصحيح أنه لا يكره على البساط إذا لم يسجد على التصاوير. قال: وهذا إذا كانت الصورة تبدو للناظرين من غير تكلف، فإن كانت صغيرة أو ممحوة الرأس لا بأس به، هذا وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو حلت أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به.
فتح الباري لابن حجر(9/671)
والمراد بالصورة الوجه.... عن حنظلة قال سمعت سالما يسأل عن العلم في الصورة فقال: كان ابن عمر يكره أن تعلم الصورة وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن تضرب الصورة يعني بالصورة الوجه.
الدرالمختار مع رد المحتار(1/648)
(أو كانت صغيرة) لا تتبين تفاصيل أعضائها للناظر قائما وهي على الأرض، ذكره الحلبي (أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لا تعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره لأنها لا تعبد.
حاشية ابن عابدين(1/647)
والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط.
حاشية ابن عابدين(1/648)
وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلا. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيرا يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل.
حاشية الصاوي على الشرح الصغير(2/501)
وصور حيوان) كاملة (لها ظل) لا منقوشة بحائط أو فرش، إذا كانت تدوم كخشب وطين، بل (وإن لم تدم) كما لو كانت من نحو قشر بطيخ.
والحاصل أن تصاوير الحيوانات تحرم إجماعا إن كانت كاملة لها ظل مما يطول استمراره، بخلاف ناقص عضو لا يعيش به لو كان حيوانا، وبخلاف ما لا ظل له كنقش في ورق أو جدار. وفيما لا يطول استمراره خلاف، والصحيح.
منح الجليل شرح مختصر خليل (3/529)
وثالثها قوله (و) إن لم يحضر (صور) مجسدة لحيوان عاقل أو غيره كامل الأعضاء الظاهر التي لا يعيش بدونها ولها ظل (على كجدار) لا مبنية في وسطه لأنها لا ظل لها كالنقش.
كشاف القناع(8/171)
(أو قطع منها) أي الصورة (ما لا تبقى الحياة بعد ذهابه فهو كقطع الرأس كصدرها أو بطنها أو صورها بلا رأس أو بلا صدر أو بلا بطن، أو جعل لها رأسا منفصلا عن بدنها، أو) صور (رأسا بلا بدن) فلا كراهة لأن ذلك لم يدخل في النهي.(وإن كان الذاهب يبقى الحيوان بعده كالعين واليد والرجل) حرم.
المغني(10/201)
وإن قطع منه ما لا يبقى الحيوان بعد ذهابه، كصدره أو بطنه، أو جعل له رأس منفصل عن بدنه، لم يدخل تحت النهى؛ لأن الصورة لا تبقى بعد ذهابه، فهو كقطع الرأس. وإن كان الذاهب يبقى الحيوان بعده، كالعين واليد والرجل، فهو صورة داخلة تحت النهى. وكذلك إذا كان فى ابتداء التصوير ، صورة بدن بلا رأس، أو رأس بلا بدن، أو جعل له رأس وسائر بدنه صورة غير حيوان، لم يدخل فى النهى؛ لأن ذلك ليس بصورة حيوان.