ہماری ایک کمپنی ہے جس میں مختلف اقسام کے کھانوں اور ڈشوں کے لئے مصالحے تیار کئے جاتے ہیں، عام طور پر اس طرح کی کمپنیوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف قسم کی ڈشیں بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ کمپنی میں یا باہر ایک کچن ایسا بنا لیا جاتا ہے جس میں کسی ماہر شیف کو جو اپنے پیشے کے اعتبار سے مشہور بھی ہو رکھ لیا جاتا ہے ،جو بعض اوقات مرد ہوتا ہے لیکن اکثر و بیشتر کوئی خاتون ہوتی ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ کھانے بنانے کا تعلق خواتین سے ہوتاہے تو اس کے لئے خاتون شیف رکھنے کارواج زیادہ ہے۔
اس کی باقاعدہ ویڈیوریکارڈنگ ہوتی ہے جو بعد ازاں سوشل میڈ یا یا اپنی ویب سائٹ پر دی جاتی ہے۔ہماری کمپنی بھی اپنے مصالحوں کی تشہیر کی غرض سے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہتی ہے کہ کسی شیف کو رکھ لیا جائے جوویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے کھانے بنانے کی تراکیب بتانے کے ساتھ ساتھ عملاً کھانا بنا کر دکھائے گی۔ ویڈیو ریکارڈنگ براہِ راست بھی نشر کی جاسکتی ہے ریکار ڈنگ کرنے کے بعد بھی نشر کی جاسکتی ہے۔اس صورتحال کے پیشِ نظر درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔
1. کیا اس طرح کے پروگرام بنانا جائز ہے ؟
2. کیا اس قسم کے پروگرام جس میں خاتون شیف ہو ، ویڈیوریکارڈ کر کے عام کئے جا سکتے ہیں؟
3. چونکہ کھانے بنانے کا تعلق خواتین سے ہے، تو اس مناسبت سے اگر کسی ایسی خاتون شیف کو اس مقصد کیلئے ویڈیو میں دکھایا جائے جس نے اسکارف پہنا ہوا ہو تو کیا پھر اجازت ہوگی؟
(1)۔۔۔آج کل سوشل میڈیا اور مختلف ویب سائیٹس پر کھانا بنانے کی ایسی ویڈیوز بھی ملتی ہیں جن میں خاتون تو کیا، مرد کی بھی تصویرنہیں ہوتی صرف انسانی ہاتھ ، کیچن اور کھانا بنانے کا سامان نظر آتا ہے۔ اس قسم کی ویڈیوز سے کام چلانا چاہیے۔ ضرورت تو انسانی تصویر کے بغیر بھی پوری ہو جاتی ہے لہٰذا خاتون والی ویڈیوز کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔
(2)۔۔۔خاتون شیف والی ویڈیوز کو عام کرنا جائز نہیں۔
(3)۔۔۔چونکہ خاتون کو ویڈیو میں لانے کی کوئی شرعی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے اجازت دی جاسکے، لہذا اگر اسکارف پہنا ہوا ہو تو پھر بھی اجازت نہیں ہو گی۔
القرآن الکریم(الاحزاب: 33)
وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى.
الجامع الصحيح سنن الترمذي (197/3)
عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان.
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (406/1)
ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.