درج ذیل مسئلہ کا حکم شریعت مطہرہ کی روشنی میں واضح فرمادیں:
الف:بعض صنعتی ادارے اپنی مصنوعات کی ترویج و فروخت کے لئے فرنچائز کا طریقہ استعمال کرتے ہیں، صنعتی ادارے کا فرنچائز لینے والے سے معاہدہ کئی شرائط پر مشتمل ہوتا ہے جو درج ذیل ہیں:
1. فرنچائز لینے والا صنعتی ادارے کا نام، تجارتی علامت (مونو ) وغیرہ استعمال کرے گا اور اس کےعوض باہم طے شدہ رقم صنعتی ادارے کو دے گا۔
2. صنعتی ادارہ فرنچائز لینے والے کے علاوہ کسی اور کو مخصوص علاقہ میں اپنی مصنوعات فراہم نہیں کرے گا۔فرنچائز لینے والا صنعتی ادارے کے علاوہ کسی اور کی مصنوعات کی نہ ترویج ( مارکیٹنگ) کرے گانہ فروخت کرے گا۔
3. فرنچائز لینے والا صنعتی ادارے کی مقرر کر دہ قیمت سے کم و بیش پر مصنوعات نہ بیچے گا، نیز بیچنے کاطریقہ کار، فرنچائز کی جگہ کی کمیت و کیفیت، بیچنے کے لئے ملازمین اور ان کا لباس وغیرہ یہ سب چیزیں صنعتی ادارے کی طے کردہ شرائط کے مطابق ہوں گی۔
ب: اسی طرح فرنچائز کا معاہدہ کسی ادارے اور فرنچائز کے درمیان یوں بھی ہوتا ہے کہ فرنچائز لینے والا اشیاءخود تیار کر کے فروخت کرے گا، البتہ نام تجارتی علامت معروف (فرنچائز دینے والے ادارہ) کی ہی استعمال ہو گی۔ اشیاء کو تیار کرنے کے لئے خام مال، تیار کرنے کا طریقہ ، بیچنے کی جگہ کی نوعیت، بیچنے کاطریقہ، وغیرہ فرنچائز دینے والے ادارہ کی لگائی ہوئی شرائط کے مطابق ہو گا۔
ج: نیز بعض سکول ، کالج، اسپتال یا دیگر خدماتی ادارہ بھی اپنی فرنچائز دیتے ہیں، جس میں خدمات تو فرنچائز لینےوالا لوگوں کو مہیا کرے گا، البتہ معیار، طریقہ کار، اجرت و غیرہ فرنچائز دینے والا ادارہ طے کرتا ہے اورفرنچائز لینے والا اس معروف ادارہ کا نام استعمال کرنے کے عوض مخصوص رقم ادا کرتا ہے۔
مذ کورہ تینوں صورتوں میں بعض فرنچائز لینے والے متعلقہ ادارہ کو یک مشت ادائیگی کے علاوہ ماہانہ یا سالانہ کچھ ادا ئیگی بھی کرتے ہیں، جس کی عموماً درج ذیل صورتیں ہوتی ہیں:
1. بعض اوقات یہ رقم لگی بندھی ہوتی ہے۔
2. بعض اوقات حاصل ہونے والے نفع میں سے کچھ فیصد طے ہوتا ہے۔
3. بعض اوقات کل آمدنی پر کچھ رقم متعین ہوتی ہے۔
نیز یہ مذ کورہ تینوں قسم کی ادائیگیاں کبھی فقط متعلقہ ادارے کا نام، تجارتی علامت وغیرہ استعمال کرنے کے عوض ہوتی ہیں اور کبھی متعلقہ ادارہ کے فرنچائز لینے والے کے کام کی وقتا فوقتا نگرانی کے بدلہ یا اس طرح کی کچھ دیگر خدمات مہیاکرنے کے عوض ہوتی ہیں۔
پس گذارش ہے کہ مذکورہ بالا تمام اقسام کی فرنچائز لینے دینے کا کیا حکم ہے ؟ نیز فرنچائز کے متعلق اگر کوئی مفصل فتویٰ اس کے علاوہ جاری کیا گیا ہو تو اس کی نقل بھی بھیج کر ممنون فرمائیں۔ جزاکم الله خير الجزاء
فرنچائز کا کام چونکہ آج کل کی تجارتی دنیا میں بہت پھیل گیا ہے، اور بڑی بڑی کمپنیاں (بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیاں)اپنی مصنوعات کی ترویج اور فروخت کے لئے عام طور پر فرنچائز کے طریقہ کے تحت ہی ڈیلروں سے معاملات کرتی ہیں، اس لئے ذیل میں پہلے فرنچائز کی حقیقت ذکر کی جاتی ہے، اس کے بعد صورت مسئولہ کا جواب دیا جائے گا۔
فرنچائز کی حقیقت مختصر الفاظ میں کیمبرج کی ڈکشنیری میں یوں بیان کی گئی ہے کہ :
a right to sell a company products in a particular area using the company name (Cambridge Advance Learners Dictionary Third Edition)
اور آکسفورڈ کی ڈکشنیری میں یہ تعریف کی گئی ہے کہ :
Formal Permission given by a Company to sb who wants to sell its goods or services in a particular area. (Oxford Dictionary 8th Edition)
ان دونوں تعریفوں کا حاصل یہ ہے کہ کسی مخصوص علاقے میں کسی کمپنی کی مصنوعات اس کے نام سے فروخت کرنے کے حق اور اجازت نامہ کو فرنچائز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جبکہ الموسوی العربیتہ العالمیہ" میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ مزید وضاحت کی گئی ہے:(ا)
یعنی تجارت اور خدمات میں فرنچائز ایک قسم کے معاہدے کا نام ہے جس کی رو سے کوئی کمپنی شخص یا سرکاری ادارہ، دوسری کمپنی یا شخص کو متعین علاقے میں طے شدہ مدت تک کےمصنوعات اور خدمات (services) کے فروخت کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس حق کوانے والا (franchisee) فروخت کرنے والے (franchisor) کو فیس ادا کرتا ہے،اس مرتبہ وہ کمپنی کی مصنوعات کے فروخت کے تناسب سے کمپنی کو مخصوص فیصدی حصہ اداکرتا ہے۔ جبکہ اس کے بدلے میں کمپنی یا متعلقہ ادارہ (franchisor) سے مختلف سروسز مییاکرتا ہے، مثلا ملازمین کی تربیت، تشہیر اور مالی تعاون وغیرہ۔ مزید بر آن متعلقہ ادارو اپنا تجارتی مار کہ (goodwill)استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کی عام طور پر مارکیٹ میں بہت زیادہ قیمت اور اہمیت ہوتی ہے۔“۔
اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرنچائز کے کاروبار میں کبھی کمپنی صرف اپنا نام دینے کے عوض فرنچائز لینے والےسے اجرت لیتی ہے اور کبھی فرنچائز کے لئے متعلقہ خدمات سر انجام دینے پر ، فرنچائز لینے والے سے اجرت کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس تمہید کے بعد سوال میں مذکور فرنچائز کی صورتوں کا حکم یہ ہے کہ :
الف:۔۔۔ سوال میں مذکور معاملہ خرید و فروخت کا ہو یا وکالت کا ( یعنی فرنچائز لینے والا، کمپنی کا تنخواہ دار ملازم اور کمپنی کاہی سامان بیچنے کا ایجنٹ ہو یا کمپنی اور فرنچائز لینے والے کے درمیان بنیادی معاملہ تو سامان کی خرید و فروخت کا ہی ہو لیکن چونکہ کمپنی کی شہرت کی وجہ سے لوگ سامان خریدنے کی طرف رغبت رکھتے ہیں اس لئے فرنچائز لینے والا، کمپنی سے خریداہوا سامان بیچنے کے لئے مذکورہ کمپنی کا نام استعمال کر کے کمپنی کو اس کا عوض ادا کرتا ہو) تو مذ کورہ معاہدے کی شق نمبر(2،3،4) کا باہمی رضامندی سے طے کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ شرائط ایسی ہیں جو اگرچہ مقتضی عقد کے تو خلاف ہیں لیکن آج کل تجار کے ہاں چونکہ اس پر عرف جاری ہو چکا ہے اور جن شرائط پر عرف جاری ہو جائے اور وہ کسی نص کے خلاف بھی نہ ہوں تو احناف کے ہاں اس کی گنجائش ہوتی ہے ۔ (دیکھئے العاییر الشرعیہ ،رقم المعیار9 ، ص 138، تقریر ترمذی، 1/ 109)
البتہ جہاں تک شق نمبر ایک (1) یعنی صنعتی ادارے کا نام استعمال کرنے کے عوض اس ادارے کو مخصوص رقم بطوراجرت دینے کی بات ہے تو واضح رہے کہ یہ معاملہ "اجارہ" یعنی کرایہ داری کا ہے، یعنی فرنچائز لینے والا ، مخصوص مدت کےلئے کمپنی کا نام استعمال کرنے کے عوض طے شدہ معاوضہ کمپنی کو دیتا ہے ، اس طرح کرایہ داری کا معاملہ کرنا اگرچہ درست نہیں کیونکہ اجارہ اعیان حسیہ اور مادی اشیاء کا ہوتا ہے، غیر مادی اشیاء کا اجارہ صحیح نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ ٹریڈ مارک اور گڈول وغیرہ اعیان حسیہ میں سے نہیں ہیں بلکہ ایک معنوی چیز ہیں اس لئے اسے کرایہ پر لینا دینا درست نہیں ہونا چاہئے ،تا ہم عصرحاضر کے محقق علماء کے نزدیک اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض اشیاء کو اعیان کے ساتھ ملحق کرنے میں عرف کا بڑادخل ہے کیونکہ علامہ ابن عابدین شامی کے مطابق مالیت، لوگوں کے مال بنانے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں تجارتی نام اور ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن کے بعد تاجروں کے عرف میں یہ حق، بڑی قیمتی چیز اور اعیان مادی اشیاء کے حکم میں ہو گیا ہے تو جس طرح اس حق کی خرید و فروخت کو جائز کہا گیا ہے، اسی طرح اگر کوئی ٹریڈ مارک با قاعدہ قانونی طور پر رجسٹر ڈ ہو تو اس کو اعیان کے ساتھ ملحق کر کے اجارہ کی دیگر شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس حق کو کرایہ پرلینے دینے کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے، بالخصوص جب کہ پوری دنیا میں فرنچائز کے معاملات اسی طرح ہو رہے ہوں تو اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
البتہ یہ بات واضح رہے کہ کمپنی کا نام استعمال کرنے پر اجرت کا مطالبہ اسی وقت درست ہو سکتا ہے جب فرنچائز لینےوالا، کمپنی کا سامان بیچنے کاو کیل اور تنخواہ دار ملازم نہ ہو ، اگر فرنچائز میں موجود سامان کمپنی کی ہی ملکیت ہو اور فرنچائز لینے والاکمپنی کا ہی ملازم ہو تو اس وقت محض نام استعمال کرنے کی وجہ سے کمپنی کا اس سے اجرت کا مطالبہ کر نادرست نہیں ہو گا۔
حقوق کی خرید و فروخت سے متعلق تفصیلی بحث کے لئے بحوث فی قضایا فقیہ معاصر مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور جدید معاشی نظام میں اسلامی قانون اجارہ " مؤلفہ حضرت مولانا محمد زبیر اشرف عثمانی صاحب زید مجدہم، کا مطالعہ فرمائیں۔(2)
ب: مذکورہ صورت میں اگر فرنچائز لینے والاء اشیاء کی تیاری میں اسی معروف کمپنی کی شرائط، معیار اور طریقہ کار کوملحوظ رکھتا ہو اور خریدار کے حق میں کسی بھی قسم کے دھو کے اور التباس کا خدشہ نہ ہو نیز قانونی طور پر بھی ایسی اجازت دیناکمپنی کے اختیارات میں شامل ہو تو کمپنی کے لئے فرنچائز لینے والے شخص سے ، سوال میں مذکور معاملہ کرنے اور کمپنی کا نام استعمال کرنے پر اجرت لینے کی گنجائش ہو گی۔
ج:اگر متعلقہ اداروں کے نام قانونی طور پر رجسٹرڈ ہوں ، اگرچہ خدمات فرنچائز لینے والا ہی مہیا کرے تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرنچائز لینے والے کے لئے کسی رجسٹر ڈ ادارے کا نام کرائے پر لینا اوراس کے عوض مخصوص رقم ادا کر نادرست ہے۔
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں رقم کی ادائیگی (خواہ ادارے کا نام استعمال کرنے کی وجہ سے ہو یا متعلقہ ادارے کی وقتاًفوقتا نگرانی اور دیگر خدمات کا معاوضہ ہو ، یک مشت دی جائے یا ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر دینا طے ہو) کے لئے سوال میں مذکور صورتوں میں سے صرف پہلی صورت جائز ہے باقی دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں، کیونکہ متعلقہ ادارہ اور فرنچائز لینےوالے کے درمیان ہونے والے مذکورہ معاملے کی شرعی حیثیت، شرکت یا مضاربت کی نہیں بلکہ اجارہ کی ہے (یعنی محض کمپنی کا نام استعمال کرنے یا کمپنی کی دیگر خدمات حاصل کرنے کے عوض کر ایہ دینا) اور اجارہ میں اجرت کا متعین ہو نا ضروری ہے مستاجر کے ہونے والے موہوم نفع میں سے اجرت کے طور پر کچھ فیصد طے کرنا یا کل آمدنی پر کچھ رقم متعین کرنا جائزنہیں ہے۔
البتہ ان کے جواز کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ کمپنی، فرنچائز لینے والے سے اپنا نام استعمال کرنے کےعوض ہر ماہ کچھ کم لَم سَم رقم اور منافع یا کل آمدنی کا کچھ فی صد مقرر کر لے تو اس صورت میں اگر چہ منافع یا کل آمدنی مجہول ہےلیکن اگر یہ جہالت مفضی الی النزاع نہ ہو (جیسا کہ عموماً ان معاملات میں نہیں ہوتی) تو اس طرح اجرت طے کرنا عقد کےلئے مفسد نہیں ہو گا کیونکہ اجرت میں وہ جہالت مفسدِ عقد ہوتی ہے جو مفضی الی النزاع ہو، لہذا پہلے سے مخصوص و متعین اجرت طے کر کے، فرنچائز کے ہونے والے منافع سے بھی فیصد کے اعتبار سے یا کل آمدنی پر کچھ متعین ر قم بطور اجرت وصول کرنے کی گنجائش ہے۔
لیکن اگر آئندہ تجربات سے معلوم ہو کہ اس جہالت کے باعث اجیر و مستاجر ( کمپنی اور فرنچائز لینے والا) کےدر میان نزاعات پیدا ہونے لگتے ہیں جو حسابات سے بھی مرتفع نہیں ہوتے تو اس وقت سے اس اجارہ کو فاسد قرار دیا جائے گا۔(3)
(اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لئے نوادر الفقہ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب زید مجدہم کا مطالعہ فرمائیں)
(ا)الإعفاء(Franchise)
الإعفاء في التجارة والأعمال (الفرانشايز نوع من اتفاقيات الأعمال التجارية. وبموجب هذه الاتفاقيات تمنح الشركة أو الفرد أو المصلحة الحكومية شركة أخرى أو فرداحق بيع سلع أو خدمات لفترة محددة وفي مكان معين ويسمى هذا الحق أيضاامتيازا. وهناك نوعان أساسيان من اتفاقيات الامتياز : الخاص والعام
الامتياز الخاص . طريقة شائعة لإدارة الأعمال ووحدات الامتياز تشمل أعمالاًتجارية مثل هوليداي إن ،وكنتاكي وفرايد تشيكين، وماكدونالد، وبيتزا هست.
وبمقتضى اتفاقية الامتياز يدفع الشخص الذي يشتري هذا الامتياز رسما للمانح(البائع) ليحصل على الحق. وقد يدفع المشتري نسبة مئوية من مبيعات الشركةللجهة البائعة وفي المقابل يقدم البائع خدمات مثل تدريب العاملين، والمساعدةالمالية والإعلان وبالإضافة إلى ذلك، يسمح البائع عادة المشاري باستخدام امره التجاري الذي يكون عادة معروفاً لدى الجميع. وهذه الميزة تكون ذات قيمة كبيرةللمشتري، وعلى سبيل المثال، إذا كانت هناك عائلة مسافرة عبر مدينة غير معروفةوقد حان وقت الطعام، ورأت العائلة ثلاثة أماكن وأرادت التوقف في أحدها لتناول الطعام، فإنها ستوقف بلاشك أمام المكان الذي يحمل اسما لجانا معروفا اليها، يحدث ذلك بالرغم من أن الناس الذين يتناولون وحياتهم في أي واحد من الأماكن الثلاثة يعرفون أن طعامهم على نفس القدر من الجودة. ومن المحتمل أن تعرف هذه العائلةعلى اسم الحل لأنها قد تناولت الطعام في الماضي في مطعم يحمل نفس الاسم.
(2)الموسوعۃ العربیۃ العالمیۃ
العلامۃ التجاریۃ
وتصبح العلامة التجارية ملكا خاصا للشخص الذي قام بتسجيلها. وتحردالتسجيل العلامة التجارية فإنه لا يمكن لغير المالك أن يستعملها، أو أن يستعمل علامةمتابعة لها بغرض إرباك المستهلكين. وبما أن العلامة التجارية ملك خاص؛ فمن الممكن تأجيرها للمصانع الأخرى، وغالبا ما يحدث ذلك عندما تسمح إحدى الشركات الشركة أخرى بتصنيع المنتجات نفسها في بلد أجنبى.
حق المؤلفCopyright
حقوق المالك يتضمن حق المؤلف حل الاستثثار إنتاج وتوزيع النسخ والمصنفات المسجلة للعمل المحمي. ولكن في الحالة التي يتم فيها بيع نسخة من المصنف، يحق للمشتري أن يتصرف فيها بالبيع أو الإيجار دون إذن المؤلف.
الفتاوى الهندية (4 / 411)
ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بھا التعامل بين الناس فلا يجوز استثمار الأشعار لتحقيق الثياب عليها.
وفي المعايير الشرعية (148)
٢/١/٥ يجب على المستأجر التقيد بالاستعمال الملائم للعين المؤجرة أو بالمتعارف عليه، والتقيد بالشروط المتفق عليها المقبولة شرعاً. كما يجب تجنب الحاق ضرربالعين بسوء الاستعمال أو بالتعدي أو بالأعمال.
(3)ولما في الهداية: (297/3)
باب الأخر متى يستحق الأجرة لا تحب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل، أوبالتعجيل من غير شرط، أو باستيفاء المعقود عليه".
وفي شرح مجلة( 265/1)
يعتبر و يراعي كل ما اشترط العاقدان في تعجيل الأجرة وتأجيلها.
الدر المختار (6 / 46)
تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لِمُقْتَضَى الْعَقْدِ فَكُل مَا أَفْسَدَ الْبَيْعَ مما مَرّ(ویفسدھا كجهالۃ مأجورٍ أو أجرواو مدةٍ أو عَمَلٍ، وَكَشَرْطِ طَعَامِ عَبْدٍ وَعَلَفِ دَابَّةٍومرمة الدار أو مغارمها وَعُشْرٍ أَوْخرَاجِ أَوْ مُؤنَةٍ رَد أَشبَاہ.
حاشية ابن عابدين (6 / 47)
وكشرط طعام عبد وعلف دابة) في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز. وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ.قال الحموي: أي فيصح اشتراطه.واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اهـ.أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل.
حاشية ابن عابدين (6 / 63)
مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.... والله سبحانه و تعالی اعلم بالصواب