ہمارا کپڑے کا برینڈ ہے، ہم اپنا تیار کردہ مال از خود بھی فروخت کرتے ہیں البتہ اگر کوئی شخص ہم سےہمارے برینڈ کی فرنچائزکر لینا چاہے تو ہم اس سے اس طرح معاہدہ کرتے ہیں کہ فرنچائز بنانے والا اپنی دکان کے مکمل اخراجات (مثلا لائٹنگ، فرنیچر وغیرہ) خود برداشت کرے گا۔ ان اخراجات کی ممکنہ ر قم تقریبا 20 سے 25 لاکھ روپے ہو گی ۔ فرنچائز تیار ہونے کے بعد ہم اسے تقریبا ساٹھ (80) لاکھ روپے کا مال دیں گے، مال فروخت کرنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ ہم اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کا ایک پیس 1000روپے میں فرنچائز والے کو دیں گے جسے وہ1200روپے میں فروخت کر ے گا، مکمل مال فروخت ہونے کے بعد اخراجات منہا کر کے دونوں پارٹیاں آپس میں نفع میں آدھا آدھا تقسیم کریں گی۔
کمپنی فرنچائز والے کو جب مال حوالے کر دے گی تو اب مال کی ذمہ داری اسی پر ہوگی بالفرض اگر فرنچائزوالے کو 1000 پیس حوالے کیے گئے ہیں تو ہم اس سے پوری مقدار کا حساب لیں گے اگر بالفرض پروڈکٹ کی مقدارمیں کسی وجہ سے کمی ہوئی مثلا دکان میں چوری ہو گئی یا کوئی اور مسئلہ ہوا، تو اس صورت میں فرنچائز والا مال کا ضامن ہوگا۔
مال دینے سے پہلے ہم فرنچائز والے سے سیکیورٹی ڈیپازٹ کی مد میں کچھ رقم تقریبا 10 لاکھ روپے رکھیں گے کہ بالفرض اگر اس نے کوئی دھوکہ دہی کا معاملہ کیا یا مال کی مقدار کسی وجہ سے کم ہو گئی تو ہم اپنے نقصان کی تلافی اس رقم سے کر سکیں۔
بر اہِ کرام ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہمارا یہ معاملہ شرعاً درست ہے یا نہیں اگر اس میں شرعاً کوئی خرابی ہے تواس کا جائزہ متبادل بھی بتادیں۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً
سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق کمپنی اور فرنچائز کے درمیان مضاربت کا معاملہ ہورہا ہے، کمپنی والا رب المال ہے اور فرنچائز والا مضارب ہے۔ سوال میں مذکورہ معاملہ درست ہے البتہ اس معاملے میں فرنچائزوالے کے پاس کمپنی کا مال بطور امانت ہو گا، اگر اس کی تعدی اور زیادتی کے بغیر مال ہلاک ہو گیا یعنی اس نے حفاظت کے مکمل انتظامات کیے ہوئے تھے ، جس طرح اپنے مال کی حفاظت کی جاتی ہے اسی طرح حفاظت کرنے کے باوجود بالفرض دکان میں چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی تو اس صورت میں فرنچائز والے کو ضامن بنانا شرعاً درست نہیں۔ اس شرط کو تبدیل کر کے یہ شرط رکھ لی جائے کہ اگر فرنچائز والے کے اپنی مکمل ذمہ داری نبھانے کےباوجود کوئی نقصان ہو گیا تو اس مال کا فرنچائز والا ضامن نہیں ہو گا " تو مذکورہ کاروبار شرعاً درست ہو گا۔
الهداية في شرح بداية المبتدي: (3/ 200)
ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه قبضه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه، وإذا ربح فهوشريك فيه لتملكه جزءا من المال بعمله ............
قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة.. .... والله تعالى اعلم بالصواب