Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ایک ہی مصلیٰ میں متعدد جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

ہماری ایک فیکٹری ہے، جس میں 250 کے قریب آفس اسٹاف اور ایک ہزار کے قریب لیبر کام کرتی ہے (سیزن کےاعتبار سے یہ تعداد کم و بیش بھی ہوتی ہے )۔ ہماری فیکٹری میں ایک ہی چار دیواری کے اندر کئی یونٹ (شعبہ جات) ہیں ، ایک مین یونٹ ہے جس میں نسبتا ًبڑی جگہ عارضی طور پر نماز کے لئے مختص تھی، اس مین یونٹ کے اندر نماز کے لئے مختص کردہ جگہ باقاعدہ مسجد نہیں بلکہ مصلی ہے۔ یہاں پنج وقتہ نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اب ہمارا سوال یہاں پر تعد دِجمعہ کے حوالےسے ہے۔

مزید کچھ تفصیل یہ ہے کہ ہماری فیکٹری میں فوڈز آئٹم بنتے ہیں، جس کی وجہ ملاز مین خصوصاً لیبر کے کمپنی میں داخلے کےلئے سخت شرائط ہیں، داخلے کے وقت ان کی چیکنگ وغیرہ کا ایک پورا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، جس میں کافی وقت صرف ہوتا ہے، نیز اگر لوگوں کو نماز کیلئے باہر چھوڑا جائے تو ملازمین وقت پر واپس نہیں آتے ، اسی طرح سیکیورٹی وغیرہ کے بھی مسائل ہوتے ہیں، نیز قریب میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد ہے، جہاں ہر جمعے کو سروس روڈ پر صفیں بچھا کر نماز ادا کی جاتی ہے، مگر پھر بھی لوگ پورے نہیں آتے۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر ملازمین کے لئے جمعہ کی نماز کا انتظام کمپنی کے اندر ہی کیا جاتاہے، جس میں تمام یونٹس کے ملازمین جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح کمپنی کے بعض یونٹ اس چار دیواری سے باہر بھی ہیں، وہاں کے آفس کے کچھ لوگ بھی جمعہ یہیں ادا کرتے ہیں، اور اگر جمعہ کے وقت میں کوئی باہر کے افراد آئے ہوئے ہوں تووہ بھی جمعہ یہیں ادا کر سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا وجوہات اور تفصیل کے مطابق فیکٹری کے حدود کے اندر نماز ِجمعہ کی ادائیگی کےکے سلسلے میں ہم نے دار الافتاء سے زبانی مسئلہ دریافت کیا تھا جس کی ہمیں اجازت مل گئی تھی۔

پہلے تو ہمارے یہاں ایک ہی جمعہ ہوا کرتا تھا جس میں تمام ملازمین جمعہ کی نماز ادا کر لیتے تھے، لیکن کرونا کی وبا کے بعد سماجی فاصلہ بر قرار رکھنے کے لئے جگہ کی تنگی کے سبب ہم نے دو جمعوں کی ترتیب شروع کر دی جو اب تک جاری ہے۔ اس دوران ادارے نے اپنی ضروریات کے پیشِ نظر نئی تعمیرات کیں اور نماز کی سابقہ عارضی جگہ اب نئی تعمیر میں ایک جگہ نماز کے لئے باقاعدہ مخصوص کر دی ہے۔

یہ جگہ مین یونٹ کے اسٹاف کے اعتبار سے تو کافی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ادارے میں چونکہ مختلف یونٹس ہیں اور ہر یونٹ کے ملازمین بقیہ نمازیں تو اپنے یونٹ میں ادا کرتے ہیں لیکن جمعہ کی نماز کے لئے مین یونٹ آتے ہیں، چنانچہ یہ جگہ تمام ملازمین کی تعداد کے اعتبار سے چھوٹی ہے، جس میں ملازمین نہ صرف یہ کہ ایک جمعہ کی صورت میں پورے نہیں آتے ہیں بلکہ موجودہ دو جمعوں کی ترتیب میں بھی جگہ کم پڑ رہی ہے ، اور کچھ لوگ جگہ کی تنگی کی وجہ سے جمعہ ادا نہیں کر پاتے، چنانچہ کمپنی منیجمنٹ نے سوچا ہے کہ اگر اسی مصلی پر یکے بعد دیگرے تین جمعے کروائے جائیں تو ایسی صورت میں تمام افراد بآسانی جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔ کمپنی کے پاس اپنی حدود کے اندر اس جگہ کے علاوہ اور کوئی کشادہ جگہ موجود نہیں ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں مندرجہ ذیل مسئلہ میں شرعی رہنمائی درکار ہے:
1. کیا درج بالا صور تحال کے پیش نظر ہم اپنے ادارے کی جائے نماز میں تین جمعوں کی ترتیب بنا سکتے ہیں ؟

2. کیا مصلی میں مطلقاز یادہ جماعتیں کروائی جاسکتی ہیں یا اس میں بھی کوئی کراہت ہے ؟

3. اگر دو یا تین جمعے کروائے جائیں تو اس کی ترتیب کیا ہوگی؟ کیا پہلے جمعے کی طرح ہر جمعے کیلئے پہلی اذان بھی دی
جائے گی یا صرف دوسری اذان اور خطبہ کافی ہو گا؟

جواب

(1,2) ۔۔۔مذکورہ جگہ چونکہ مسجد ِشرعی نہیں ہے اس لئے یہاں تکرارِ جماعت کے اگر چہ وہ احکام نہیں ہیں جو مسجدِشرعی کے ہوتے ہیں، لیکن جمعہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت والی شان پائی جاتی ہے اس لئے فیکٹری میں بھی ایسی جگہ جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے جہاں یہ مقصد بہتر طریقہ سے پورا ہو سکے۔ اور انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ جمعہ کی ادائیگی کیلئے کشادہ جگہ کا بندوبست کرے تا کہ تمام نمازی بیک وقت ایک جماعت کے ساتھ جمعہ کی نمازادا کر سکیں۔

چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کا معمول بنانا جمعہ کی روح کے منافی ہے۔ تاہم صورت مسئولہ میں جب تک کشادہ جگہ کا انتظام نہ ہو سکے اور فیکٹری سے باہر مساجد میں جانا بھی مشکل ہو تو مجبوری میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے مصلیٰ پر جمعہ کی ایک سے زیادہ جماعتیں کروائی جاسکتی ہیں، بشر طیکہ مصلی میں جتنے افراد کی گنجائش ہے پہلی جماعت میں اُتنے افراد موجود ہوں، وہاں مزید گنجائش نہ رہے۔ البتہ آئندہ کیلئے بڑی جگہ کا انتظام کیا جائے تاکہ جمعہ کی شان بر قرار رہے۔

(3)۔۔۔پہلی اذان تو ایک ہی ہوگی، البتہ خطبہ والی اذان اور اقامت ہر جماعت کی الگ الگ ہوگی، نیز امام اور مقتدی بھی ہر جماعت کے علیحدہ علیحدہ ہونے ضروری ہیں۔

تحفة الفقهاء- (114/1)

وإن صلى في مسجد بأذان وإقامة هل يكره أن يؤذن ويقام فيه ثانيا ينظر إن كان مسجداله أهل معلوم فإن صلى فيه غير أهله بأذان وإقامة لا يكره لأهله أن يصلوا فيه بجماعة مع الأذان والإقامة وإن صلى فيه أهله بأذان وإقامة أو بعض أهله فإنه يكره الغير أهله وللباقين من أهله أن يعيدوا الأذان والإقامة وهذا عندنا وقال الشافعي لا يكره تكرار الأذان والإقامة وهذه المسألة في الحاصل بناء على مسألة أخرى أن تكرارالجماعة الصلاة واحدة في مسجد واحد هل يكره ففى كل موضع يكره تكرار الجماعة يكره تكرار الأذان وفي كل موضع لا يكره تكرار الجماعة لا يكره لأنهما من سنةالصلاة بجماعة والجواب فيه ما ذكرنا ..والله بحاله وتعالى العلم بالصواب


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2323/4 المصباح : Sf:046
17 0