Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


سپلائر سے ادائیگی کی شرائط طے کرنے کا شرعی حکم


سوال

ہمارا گوشت ایکسپورٹ کا کاروبار ہے جس کے لئے ہم یہاں کے مقامی سپلائرز سے خام گوشت حاصل کرتے ہیں، ان سپلائرز کی پیمنٹ جو کہ لاکھوں میں ہوتی ہے ہم بینک کے ذریعے ادا کرتے ہیں، جس کے لئے سپلائرز کے نام پر بینک کا چیک بنادیا جاتا ہے۔
ہمارا اور عام طور پر دیگر تاجروں کا روباری عرف یہی ہے کہ سپلائر زوغیرہ کی پیمنٹ جو کہ عموما ًلاکھوں کروڑوں میں ہوتی ہیں، بینک کے ذریعے ہی ادا کی جاتی ہیں جس کے لئے چیک بنا کر دیا جاتا ہے۔

اب بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک، آدھ سپلائر کی طرف سے خلافِ عرف اصرار ہوتا ہے کہ مجھے کیش (نقد) شکل میں پیمنٹ کی جائے،ایسی صورت میں مجبوراً اس کو کیش کا چیک بنا کر دیا جاتا ہے، یا بینک سے کیش لا کر دے دیا جاتا ہے، تاہم ایسی صورت میں ہم بینک کی طرف سے کا ٹا جانے والا ٹیکس کاٹ لیتے ہیں، اور سپلائرز کو ٹیکس کاٹ کر باقی رقم کی ادائیگی کر دیتے ہیں، جس کو طوعا ًیا کرھاً سپلائر بھی تسلیم کر لیتا ہے۔

جواب طلب امر یہ ہے کہ:
1. ہمارے لئے سپلائر کو ادائیگی کرتے وقت بینک کی طرف سے کاٹا جانے والا ٹیکس سپلائر کی مد سے کاٹنا جائز ہے یا نہیں ؟ سپلائر کے راضی ہونے یا مجبوراً قبول کرنے میں سے ہر صورت کا حکم واضح فرمادیں۔
2. اگر جائز نہیں ہے تو آج تک جن سپلائرز کو اس طرح ادائیگی کی گئی ہے اس سے متعلق کیا حکم ہے جبکہ سپلائرز کو تلاش کرنا یا ان کی خوشی ناخوشی کو معلوم کرنا بہت مشکل کام ہے۔
3. اگر سپلائرز سے معاملہ کرتےوقت یا پہلے سے طے کر لیا جائے کہ آپ کوا دائیگی بینک کے ذریعے ہو گی، اور کیش کی صورت میں پیمنٹ لینے پر بینک ٹیکس کی کٹوتی آپ کی مد میں سے ہو گی تو کیا حکم ہے؟

جواب

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں سپلائر کی رضامندی کے بغیر طے شدہ قیمت میں سے بینک ٹیکس کی کٹوتی کرنا جائزنہیں، کیونکہ جس قیمت پر خرید و فروخت کا معاملہ ہوا ہو، اصلا اس پوری قیمت کی ادائیگی مشتری پر لازم ہوتی ہے،اور اگر اس کی ادائیگی میں کسی قسم کے اخراجات ہوں تو وہ بھی مشتری کے ذمہ ہوتے ہیں۔ لہذا اگر قیمت کی ادائیگی کیلئے آپ بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکلوائیں تو بینک ٹیکس کی ذمہ داری شرعا ًآپ کی ہے اور سپلائر کو مکمل قیمت کی ادائیگی ضروری ہے، البتہ اگر سپلا ئر خوشی ورضامندی سے اس ٹیکس کے بقدر رقم کی کٹوتی پر راضی ہو جائے تو اس صورت میں ٹیکس اس کی رقم سے لیا جا سکتا ہے، وذلك يكون حطاً من الثمن

(2)۔۔۔ اب تک جن سپلائر سے اُن کی رضامندی کے بغیر بینک ٹیکس زبر دستی وصول کیا گیا ہے وہ اگر معلوم ہوں اور ان سے رابطہ ممکن ہو تو انہیں کٹوتی کی گئی رقم واپس کرنا ضروری ہے ، اور اگر ٹیکس کی کٹوتی کاریکارڈ نہ ہو توباہمی رضامندی سے کچھ دیکر صلح کر لی جائے اور جانبین سے ایک دوسرے کو معاف کیا جائے۔البتہ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کس کس سپلائر کے ساتھ اس طرح معاملہ کیا گیا تھا تو ایسی صورت میں محتاط اندازہ کے مطابق رقم اصل مالکان کی طرف سے صدقہ کرنی ہو گی۔

(3)۔۔۔اگر معاملہ کرتے وقت ابتداء ہی میں سپلائر سے اس طرح کا معاہدہ کر لیا جائے اور سپلائر اس پر خوشدلی سے راضی ہو جائے تو ایسی صورت میں بینک ٹیکس اس سے وصول کیا جاسکتا ہے، اور یہ سمجھا جائے گا کہ ابتداء ًہی سےمقررہ ٹیکس کی کٹوتی کے بعد ثمن کم مقرر کیا گیا ہے۔

حاشية ابن عابدين - (٤ / ٥٦٠)
قوله ( وأجرة وزن ثمن ونقده ) أما كون أجرة وزن الثمن على المشتري فهو باتفاق الأئمة الأربعة وأما الثاني فهو ظاهر الرواية وبه كان يفتي الصدرالشهيد وهو الصحيح كما في الخلاصة لأنه يحتاج إلى تسليم الجيد وتعرفہ بالنقد كما يعرف المقدار بالوزن ولا فرق بين أن يقول دراهمي منقودة أولا هو الصحيح خلافا لمن فصل وتمامه في النهر.

المحيط البرهاني (٦ / ٤٢٥)
وفي المنتقى»: . وفيه أيضاً: إذا اشترى من آخر عيناً بكذا على أن يحط من ثمنه كذا أو على أنه حطه من ثمنه كذا فالبيع جائز، والحط جائز ويكون البيع بما وراء المحطوط قال :ثمة وقوله على أن يحط ،مثل قوله:حططت ألا ترى أنه لو قال لمديونه صالحتك مما لي عليك على كذا على أن أحط لكنه كذا، فهذا حطه جائز ولو قال: بعتك هذا العبد بكذا على أني قد وهبت لك من ذلك كذا وهو خط.

حاشية ابن عابدين (۸۵/۵)
قوله ( وفيه نفع للمشتري ( ومنه ما لو شرط على البائع طحن الحنطة أوقطع الثمرة وكذا ما اشتراه على أن يدفعه البائع إليه قبل دفع الثمن أو على أن يدفع الثمن في بلد آخر أو على أن يهب البائع . منه كذا بخلاف على أن ثمنه كذا لأن الحط ملحق بما قبل العقد ويكون البيع بما وراءيحط من المحطوط بحر.

المحيط البرهاني (٢١٤/٥)
والسبيل في المعاصي ردها، ولذلك ههنا يرد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق منه إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله........... واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1743/25 المصباح : Fdx:017
23 0