ہم پاکستان سے مخصوص مصنوعات کی ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں، ایکسپورٹ کے نتیجے میں کسٹمر سے قیمت کی وصولی کی صورتوں سے متعلق شرعی حکم جاننا مقصود ہے،بیرون ملک کسٹمر سے پیسے منگوانے کی عملی صورت درج ذیل ہے :
ادارے کی طرف سے بیرون ملک مال بھیجا جاتا ہے تو ایکسپورٹ کے ضابطے کے مطابق بینک سے ایک ای فارم فل کر کے جمع کرایا جاتا ہے جس میں اس مال کی قیمت لکھی ہوتی ہے ، ایکسپورٹ کر دہ مال کو کسٹم سے کلیئر کرانے کے لئے یہ فارم جمع کراناضروری ہوتا ہے۔
انڈر انوائسنگ
1) ہماری کمپنی عام طور پر اس فارم میں کسٹمر سے طے شدہ قیمت سے کم قیمت لکھتی ہے۔ یعنی اگر وہ مال دس ہزار ڈالر کا ہو تا ہے تو آٹھ ہزار لکھا جاتا ہے ، اس انڈر انوائسنگ کے مقاصد میں عام طور پر درج ذیل کوئی مقصد ہوتا ہے:
1. چونکہ ای فارم میں لکھی گئی رقم بہر صورت بینک کے ذریعے منگوانا ضروری ہوتا ہے ، اور بینک اس پر ٹیکس کا ٹتا ہے، اس لئے ٹیکس سے بچانے کے لئے قیمت کم ظاہر کی جاتی ہے۔
2. عموماً بینک کا ڈالر ریٹ عام مارکیٹ کی نسبت کم ہوتا ہے اس لئے زیادہ ریٹ میں بیچنے کے لئے۔
3. بعض دفعہ کسٹمر ڈیفالٹر نکل آتا ہے اور پیسے ادا نہیں کرتا جبکہ بینک گور نمنٹ قوانین کی وجہ سے بہر صورت پیسےمنگوانے کا تقاضا کرتا ہے ( تا کہ ملک میں زر مبادلہ آئے) اس لئے ایسے نادہندہ کسٹمرز کی طرف سے آنے والے فرق کو برابر کرنے کے لئے انڈر انوائسنگ کی جاتی ہے۔
ھنڈی / حوالہ :
2) اس کے بعد کی صور تحال یہ ہے کہ ای فارم میں لکھی گئی رقم تو بینک کے ذریعے منگوالی جاتی ہے ، جبکہ بقیہ رقم مختلف ذرائع سے منگوائی جاتی ہے وہ ذرائع درج ذیل ہیں:
1. کبھی اگر اس ملک میں خود جانا ہو تو کسٹمر سے دستی رقم وصول کر کے ساتھ لے آتے ہیں؟
2. کبھی وہ کسٹم یا اس کا نمائندہ ہمیں پاکستان میں دستی طور پر یہ رقم ادا کر دیتا ہے؟
3. کبھی بذریعہ حوالہ ھنڈی رقم منگوائی جاتی ہے جس کا طریقہ درج ذیل ہوتا ہے:
I. عام طور پر منی ایکسچینجر (صرّاف) ہمارا جاننے والا ہوتا ہے ،اب کسٹمر کے ذمہ ہمارے جو ڈالر یا در ہم واجب ہیں (ڈالر اور درہم کے باہمی تبادلے کی شرح ایک ہی ہوتی ہے ) ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں ہمارے فلاں منی ایکسچینجر کو دے آؤ ، چنانچہ کسٹمر اپنے کسی نمائندے کے ذریعے وہ ڈالر ہمارےنما ئندے کو دے آتا ہے، اب ہم منی ایکسچینجر سے ان ڈالرز کی پاکستانی روپوں کے بدلے خرید و فروخت کا معاملہ کرتے ہیں اور اس سے ریٹ معلوم کرتے ہیں، چنانچہ اگر ریٹ ہماری پسند کا ہو جو کہ عموماًمارکیٹ ریٹ ہی ہوتا ہے تو اس وقت معاملہ فائنل کر لیتے ہیں ورنہ وہ بتادیتا ہے یا بعض دفعہ ہمیں بھی انداز ہوتاہے کہ کل تک یا شام تک ریٹ بڑھ جائے گا، تو اس وقت تک ہم رک جاتے ہیں ، اس کے بعد ہم اس سےخرید و فروخت کا معاملہ کرتے ہیں اور معاملہ فائنل ہونے پر اس صرّاف کا نمائندہ پاکستان میں ہمیں پاکستانی روپوں کی شکل میں رقم دے دیتا ہے۔
وضاحت:
• واضح رہے کہ کسٹمر اس صرّاف کو پیسے دینے کے بعد بری الذمہ ہو جاتا ہے ، اس کے بعد ریٹ طے ہونے تک ہمارے ڈالر اس صراف کے پاس امانتا ًہوتے ہیں۔
• اس خرید و فروخت پر صراف سے کمیشن وغیرہ کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا ، البتہ ڈالر کی خرید و فروخت میں جو نفع ہوتا ہے وہ اس کا منافع ہوتا ہے ، دراصل ان کو وہاں ضرورت ہوتی ہےاور ہمیں یہاں پاکستان میں، لہذامذ کورہ طریقے سے دونوں کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔
• مذکورہ معاملہ ضروری نہیں کہ با ضابطہ منی ایکسچینج کا کام کرنے والے کے ذریعے ہو، بلکہ بعض دفعہ اس ملک میں موجود پاکستان کی کوئی کمپنی مثلا ٹریولنگ ایجنسی وغیرہ کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔
II. بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ ملک میں کوئی صراف ہمارا واقف نہیں ہو تا ، ایسی صورت میں ہم یہاں پاکستان میں کسی صراف سے معاملہ کرتے ہیں کہ وہ فلاں ملک سے ہمارے پیسے منگوا دے اور اس سے ریٹ طے کر لیتے ہیں، چنانچہ وہ اپنے ذرائع استعمال کر کے اس ملک کے کسی صراف سے رابطہ کرتا ہےاور ہمیں بتا دیتا ہے کہ اپنے کسٹمر کو کہوں کہ فلاں صراف کو پیسے پہنچا دو چنا نچہ ہم اپنے کسٹمر کو کہہ کر مذکورہ صراف کو پیسے پہنچا دیتے ہیں، یہاں پاکستان کا صراف طے شدہ ریٹ کے مطابق ڈالر کے عوض روپے ہمیں دے دیتا ہے۔
اس مذکورہ صورت میں معاملہ ہوتے وقت کسی جانب سے قبضہ نہیں ہو تا بلکہ پاکستانی صراف سے ریٹ طے کر لیا جاتا ہے ، اس کے بعد جب وہ دوسرے ملک میں اپنے ذرائع سے کسی صراف سے کوئی معاملہ طےکر لیتا ہے اور ہمیں اپنے کسٹمر کے ذریعے ڈالر مذ کورہ صراف کو پہنچانے کا کہتا ہے جب ہم اس کے بتائے گئےصراف کو پیسے (ڈالر) بھیجتے ہیں۔
1. کیا ھنڈی اور حوالہ کی یہ صورت اور مذکورہ بالا صورتیں جائز ہیں ؟
2. اس آخری صورت میں اگر ہم پاکستانی صرّاف سے صرف وعدہ بیع کر لیں اور وعدہ بیع کے ذریعےایک ریٹ بُک کر لیں ، پھر جب دوسرے ملک میں اس پاکستانی صرّاف کے بتائے گئے صراف کے پاس پیسے پہنچ جائیں تو اس وقت طے شدہ ریٹ پر عملی بیع کر لیں تو اس کی گنجائش ہے ؟
3. کیا ہمارے لئے انڈر انوائسنگ کی مذکورہ صورت کی گنجائش ہے ؟
جواب سے پہلے بطور تمہید سمجھ لینا مناسب ہے کہ : بیرون ملک صراف کو دوسری کرنسی دیکر اس کےعوض یہاں روپیہ وصول کرنے کا معاملہ درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
(الف) دونوں عوضوں میں سے کسی ایک پر مجلس عقد میں قبضہ کیا جائے، یعنی خرید و فروخت کرتے وقت یا تو وہ شخص جو پاکستان میں روپیہ دیدے ( یعنی صراف اور منی ایکسچینجر یا اس کا وکیل ) وہ اسی مجلس میں دوسری کرنسی ( مثلا ڈالر یا در ہم وغیرہ) پر قبضہ کرے، یاوہ پہلے سے اس کے قبضہ میں ہو ، یا جو شخص اس کرنسی کے عوض پاکستانی روپیہ لے رہا ہے وہ پہلے پاکستانی روپیہ پر قبضہ کرے۔
(ب) اس طرح ہنڈی کے ذریعہ یا حوالہ کے ذریعہ رقم بھیجنا قانونا منع نہ ہو۔
مذکورہ شرطوں میں سے اگر پہلی شرط کا لحاظ نہ رکھا گیا تو یہ معاملہ سرے سے ناجائز ہو گا اور دوسری شرط کا لحاظ نہ رکھا گیا تو قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہو گا لیکن کمایا ہوا نفع حرام نہ ہو گا۔ (مأخذہ: اسلام اور جدید معاشی مسائل، جلد ۲ ص ۱۸۶و تبویب: ۱۹/ ۲۸۵)
تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
(1)۔۔۔ سوال میں ادائیگی کی ذکر کردہ پہلی دو صورتیں نیز تیسری (حوالہ والی ) صورت کی پہلی (I)صورت تو درست ہیں، البتہ تیسری صورت کی دوسری (II) صورت میں چونکہ ابتداء منی ایکسچینجر سے بات تبادلہ نہیں ، بلکہ وعدہ ہے ، جب اس کا وکیل ڈالر پر قبضہ کرلے پھر بیع ہوتی ہے، لہذا اگر اسی طرح معاملہ ہو تو یہ جائز ہے۔
(2)۔۔۔ جی ہاں، یہ صورت اختیار کرناشر عا ًجائز ہے۔
(3) ۔۔۔ اگر واقعتاً ٹیکس قابل برداشت نہ ہو یا معروف طریقے پر مال کی پوری قیمت لکھوانے کی صورت میں آپ لوگوں کا (سوال میں مذکورہ وجوہ کی بنا پر) حقیقی نقصان ہو رہا ہے تو اس نقصان کے تدارک کے لئے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ:
(چونکہ حکومت کے بعض ٹیکسوں کی شرح فیصد بہت زیادہ ہوتی ہے؛ اس لئے ان کے سدباب کے لئے یاتو) حکومت سے گفت و شنید کر کے کوئی صورت نکالی جائے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو، اور نقصان کےتدارک کے لئے مناسب بھی ہو، تاہم اگر حکومت سے گفت و شنید کے باوجود بھی واضح طور پر اضافی (ظالمانہ)ٹیکسوں سے نجات کی کوئی صورت نہ بن سکے ، تو ایسی شدید مجبوری کی صورت میں (سوال میں مذکور ) انڈرانوائسنگ (توریہ کر کے زیادہ مال یا ثمن کو کم مقدار میں ظاہر کرنا) کی صورت اختیار کرنے کی بھی گنجائش ہے،بشر طیکہ اس صورت میں کسی اور خلافِ شرع کام مثلاً رشوت و غیرہ کا ارتکاب لازم نہ آئے۔ (مأخذہ التبویب 56/471 بتصرف)
القرآن الکریم: [النساء: 59]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
صحيح البخاري (10/ 111)
عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال السمع والطاعة حق ما لم يؤمر بالمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة.
الفتاوى الهندية (5 / 339)
رجل قال لآخر كم أكلت من تمري؟ فقال خمسة، وهو قد أكل العشرة لايكون كاذبا، وكذا لو قال بكم اشتريت هذا الثوب؟ فقال بخمسة، وهو قداشترى بعشرة لا يكون كاذبا، كذا في الخلاصة.
الفتاوى الهندية (2 / 61)
رجل قال لغيره كم أكلت من تمري فقال: أكلت خمسة وحلف وقد كان أكل من تمره عشرة لا يكون حانثا وكاذبا...
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1 / 168)
ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع،...فيجوز إذن أن يباع الريال السعودي مثلا بعدد أكثر من الربيات الباكستانية.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (1 / 137، 138)
بيع العملات بدون التقابض:
ثم إن هذه الأوراق النقدية، وإن كان لا يجوز فيها التفاضل ( إذا كانت جنس واحد، ولكن بيعها ليس بصرف فلا يشترط فيه التقابض في مجلس العقد، نعم يشترط قبض أحد البدلين عند الإمام أبي حنيفة وأصحابه؛ لأن الفلوس عندهم لا تتعين بالتعيين، فلو افترقا دون أن يقبض أحد البدلين، لزم الافتراق عن دين بدين. وأما عند الأئمة الثلاثة فينبغي أن لا يشترط ذلك إن كان أحد البدلين متعينا؛ لأن الأثمان تتعين بالتعيين عندهم وهل يجوز هذاالبيع نسيئة؟ كما هو معمول به اليوم عند كثير من التجار وعامة الناس، أنهم يعطون عملة بلدهم، بشرط أن يؤدي الأخذبدلها في شكل عملة بلد آخر بعدمدة، مثل أن يعطي زيد عمرا ألف ريال سعودي في المملكة السعودية، بشرط أن يؤدي عمرو بدلها أربعة آلاف ربية باكستانية في باكستان.
فأما عند الحنفية فيجوز هذا البيع؛ لأن الأثمان لا يشترط فيها كونها مملوكةللعاقد عند البيع عندهم فيصح فيها التأجيل عند اختلاف الجنس، قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله : وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقدالثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع، فالبيع جائز؛ لأن الفلوس الرائجة ثمن كالنقود. وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا، ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد، كما لا يشترط ذلك في الدراهم والدنانير) فصار البيع حينئذ بيعابثمن مؤجل، وذلك جائز في الأجناس المختلفة.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة - (1 / 171،168)
ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع،...... ثم إن أسعار هذه العملات بالنسبة إلى العملات الأخرى، ربما تعين من قبل الحكومات، فهل يجوز بيعها بأقل أو أكثر من ذلك السعر المحدد؟من أنهاوالجواب عندي أن البيع بخلاف هذا السعر الرسمي لا يعتبر ربا؛ لما قدمنا .أجناس مختلفة، ولكن تجري عليه أحكام التسعير، فمن جوز التسعير في العروض، جاز عنده هذا التعسير أيضا، ولا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، وحينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصبة دينية... والله سبحانه أعلم بالصواب