آج کل کتابوں کی نشر واشاعت میں رائیلٹی لینے کا سلسلہ رائج ہے، اسی طرح بعض دیگر کاروباری اداروں میں بھی رائیلٹی لینے کا طریقہ مروج ہے مثلاً :کوئی شخص یا ادارہ کسی دوسرے ادارے کو کسی مخصوص پروڈکٹ کا فارمولہ دیتا ہے تو بعض دفعہ اس کی قیمت یکمشت وصول کر لیتا ہے اور بعض دفعہ کچھ رقم یکمشت لینے کے ساتھ اس پروڈکٹ کے ہر بیج (یا ایڈیشن پر )مخصوص مقدار میں وہ پروڈکٹ یا کتاب لینے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، ان صورتوں کا کیا حکم ہے، اگر نا جائز ہے تو کوئی متبادل صورت ممکن ہو تورہنمائی فرمائیں، آج کل اس طرح کے معاملات میں بہت زیادہ ابتلاء ہے۔
جو شخص دوسرے کو فار مولافروخت کرتا ہے، اس میں یہ شرط بھی لگاتا ہے کہ وہ دوسرا ادارہ کسی اور کو یہ فارمولا فروخت نہیں کرے گا۔ اس کا کیا حکم ہے؟
)1) ۔۔۔ معاصرین علماء کرام نے کتاب یا کمپنی کے فارمولہ کی (royaltyحقِ ملکیت) فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس حق کو فروخت کرنے کی صورت میں معاوضہ باہمی رضا مندی سے جو بھی طے کر لیاجائے جائز ہے (بشر طیکہ وہ مال ہو)۔ نیز اس میں کوئی ایسی جہالت بھی نہ ہو جو باہمی نزاع کا سبب بن جائے۔لہذا صورت مسئولہ میں مصنف یا ادارہ، کتاب کے حق یا فارمولہ کے فروخت کی قیمت نقد کی صورت میں یکمشت وصول کر سکتا ہے۔ تاہم قیمت اس طرح طے کرنا کہ پیشگی کچھ رقم یکمشت لے لی جائے اور پھر ہرایڈیشن یا(batch)پر مخصوص مقدار میں کچھ پروڈکٹ اور کتابیں لینے کا معاہدہ ہو جائے تو اس میں جہالت ہے کہ آئندہ کتنی پروڈکٹ ہو گی ؟ اور اسپر کتنا نفع حاصل ہو گا۔ البتہ دو شرطوں کے ساتھ اس طرح قیمت طے کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
(الف) اس طریقہ سے کسی شے کا معاوضہ طے کرنے کی قانونی اجازت ہو اور عدالتیں اس معاملہ کو تسلیم کرتی ہوں۔
(ب) اس طریقہ کے مطابق معاوضہ دینے میں ایسی جہالت نہ پائی جائے جو متعاقدین کے درمیان آگےچل کر باہمی نزاع کا سبب بن جائے۔
(2)۔۔۔ بنیادی طور پر خرید و فروخت میں کوئی ایسی شرط لگانا جس میں بیچنے والے کا نفع ہو اور وہ عقدِ بیع کےخلاف بھی ہو جائز نہیں ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں کسی چیز کو ایجاد کرنے والا اس چیز کے ایجاد پر لاکھوں رو پیہ لگاتا ہے اور اس کی ایجاد پر جسمانی اور ذہنی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور اپنی راحت و آرام کو قربان کرتاہے۔ لہذ افار مولہ بنانے والا اس سے نفع حاصل کرنے کا اس شخص سے زیادہ حقدار ہے جو تھوڑے سے مال میں سے اس فارمولہ کو خرید کر آگے فروخت کرے اور اس کو ضرر پہنچائے۔ اس لیے اگر قانوناًاورعرفاًمذکورہ شرط لگانے کی اجازت ہو تو شرعاً کبھی فارمولہ بنانے والا اپنے اس حق کو محفوظ کر کے اس کی نقل بنانےاور فروخت کرنے پر پابندی عائد کر سکتا ہے۔لہذا جس شخص یا ادارے کا باقاعدہ معاہدہ ہو جائے شرعاً اس پر واجب ہے کہ اس شرط اور معاہدہ کی پابندی کرے اور اپنے وعدہ اور معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے آگے فروخت نہ کرے،ورنہ گنہگار
ہو گا۔ (ماخوذ از تبویب:589/53)
الفتاوى الهندية (3 / 3)
وأن يكون المشروط محظورا وشرط ما لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع وللمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس.
الفتاوى الهندية (3 / 3)
وأما شرائط الصحة...... ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 24)
ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} [البقرة:275] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة القاضي محمد تقي العلماني (122)
حق الابتكار وحق الطباعة:
إن حق الابتكار حق يحصل بحكم العرف والقانون لمن ابتكر مخترعا جديدا أو شكلا جديدا لشيء. والمراد من حق الابتكار أن هذا الرجل ينفرد بحق إنتاج ما ابتكره وعرضه للتجارة. ثم ربما يبيع هذا الحق إلى غيره، فيتصرف فيه تصرف المبتكر الأول من إنتاجه للتجارة. وكذلك من صنف كتابا أو ألفه فله حق طباعة ذلك الكتاب ونشره والحصول على أرباح التجارة. وربما يبيع هذا الحق إلى غيره، فيستحق بذلك ما كان يستحقه المؤلف من طباعته ونشره. فالسؤال: هل يجوز بيع حق الابتكار أو حق الطباعة والتأليف أم لا يجوز؟ وقد اختلفت في هذه المسألة آراء الفقهاء والمعاصرين، فمنهم من جوز ذلك، ومنهم من منع.
والمسألة. الأساسية في هذا الصدد: هل حق الابتكار أو حق الطباعة حق معترف به شرعا؟ والجواب على هذا السؤال أن من سبق إلى ابتكار شيء جديد سواء كان ماديا أو معنويا، فلا شك أنه أحق من غيره بإنتاجه لانتفاعه بنفسه، وإخراجه إلى السوق من أجل اكتساب الأرباح، وذلك لما روى أبو داود عن أسمر بن مضرس رضي الله عنه قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فبايعته فقال: ((من سبق إلى ما لم يسبقه مسلم فهو له)) (1) .
وإن كان العلامة المناوي رحمه الله رجح أن هذا الحديث وارد في سياق إحياء الموات،ولكنه نقل عن بعض العلماء أنه يشمل كل عين وبئر ومعدن، ومن سبق لشيء منها فهي له (2) ، ولا شك أن العبرة لعموم اللفظ لا الخصوص السبب............من منهم ونظرا إلى هذه النواحي أفتى جمع العلماء المعاصرين بجواز بيع حق، أذكر منهم من علماء القارة الهندية: مولانا الشيخ فتح محمد اللكنوي رحمه الله (تلميذ الإمام عبد الحي اللكنوي رحمه الله (1) والعلامة الشيخ المفتي محمد كفاية الله والعلامة الشيخ نظام الدين، مفتي دار العلوم بديوبند (2) وفضيلة الشيخ المفتي عبد الرحيم اللاجبوري (3) .
رسائل ابن عابدين (121/2)
ويدل على ذلك انهم صرحوا بفساد البيع بشرط لا يقتضيه العقد وفيه نفع لاحد العاقدين واستدلوا على ذلك بنهيه صلى الله تعالى عليه وسلم عن بيع وشرط وبالقياس واستثنوا من ذلك ما جرى به العرف كبيع نعل على ان يحذوها البائع قال في منح الغفار فان قلت اذا لم يفسد الشرط المتعارف العقد يلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث قلت ليس بقاض عليه بل على القياس لان الحديث معلول بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة والعرف ينفى النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث ولم يبق من الموانع الا القياس والعرف قاض عليه..واللہ سبحانہ و تعالی اعلم