ہماری ایک تجارتی کمپنی ہے اور ہمیں اپنی مصنوعات کی پروموشن اور تشہیر کے حوالے سے ایک مسئلے کے سلسلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے؛
آج کل دکانوں کی جگہ اکثر بڑے بڑے سپر اسٹور وجود میں آچکے ہیں جہاں گاہکوں کو ایک ہی چھت کے نیچے اپنی ضرورت کی تمام چیزیں عام دکانوں کے مقابلے میں ستے ریٹ پر مل جاتی ہیں۔ ان سپر اسٹور ز کو کمپنیوں سے بڑی مقدار میں مال خریدنے کی وجہ سے عام دکانداروں کے مقابلے میں زیادہ ڈسکاؤنٹ کے ساتھ مال ملتا ہے۔
سیلز کے نقطۂ نظر سے آجکل سپر اسٹور دو قسم کے ہیں؛
1. ایک تو وہ ہیں جو بہت بڑے بڑے ہیں انہیں پرائمری کسٹمرز کہا جاتا ہے جیسے کہ ہائپر اسٹار، امتیاز ، الفتح، وغیرہ
2. جب کہ دوسرے وہ ہیں جن کا حجم ان سے کم ہے وہ ہر شہر میں بے شمار ہیں۔ اور انہیں سیکنڈری کسٹمرز کہا جاتا ہے۔
کمپنیوں کا مال عمومی طور پر ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے ہی دکانوں اور اسٹور ز تک پہنچتا ہے تاہم پہلی قسم کے کسٹمرز کو مال کچھ کمپنیاں بر اہ ِر است خود فراہم کرتی ہیں اور دوسری قسم کے کسٹمرز کو حسبِ ترتیب ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے ہی مال کی سپلائی کی جاتی ہے۔
عموماً وہی مال زیادہ بکتا ہے جو ڈ سپلے پر نمایاں نظر آئے۔ چنانچہ ایک ہی جیسی مصنوعات بنانے والی مختلف کمپنیوں میں سےہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ ان کی تیار کردہ مصنوعات نظر آئیں۔ گاہکوں کی اس نفسیات اور کمپنیوں کی مقابلہ بازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سپر اسٹور ز مالکان نے اپنے اسٹور ز میں سامان رکھنے کی جگہ کرائے پر دینا شروع کر کے اس طرح بھی منافع کمانا شروع کر دیا ہے۔ اور یہ کام مارکیٹ میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ اب مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں کی مجبوری اور ضرورت بن گئی ہے کہ وہ ان اسٹورز کو اشیاء سستی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اشیاء مناسب جگہ پر رکھوانے کے لئے الگ سے جگہ بھی ضرور کرائے پر لیں ، اگر جگہ نہ خریدی جائے تو اسٹور مالکان یا تو سامان خریدنے سے انکار کردیتے ہیں یا سامان کو ڈسپلے میں نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ پروڈکٹ زیادہ نہیں بکتی، اور انتہاءً اس کا نقصان کمپنی کو ہوتا ہے، اس لئے مجبوراً ان سے شیلف لینا پڑتا ہے اور اس کے بدلے ماہانہ متعین چار جزادا کئے جاتے ہیں۔
مارکیٹ کے اس چلن کی وجہ سے اب ہماری بھی مجبوری بن گئی ہے کہ ہم بھی اپنی مصنوعات کیلئے جگہ (شیلف) کرائے پرلیں کیونکہ نہ لینے کی صورت میں مناسب ڈسپلے نہیں ملے گا جبکہ دوسری طرف مقابلے میں موجود کمپنیاں اس طریقِ کار کو اختیارکر کے ہماری سیلز پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
اب جگہ کرائے پر لینے کیلئے جو معاہدہ کیا جاتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں۔
• یا تو یہ معاہدہ اور سامان کی فروختگی کا معاملہ ایک ساتھ ہی کئے جاتے ہیں جیسا کہ پرائمری کسٹمرز وغیرہ کے ساتھ جومعاہدے ہوتے ہیں ان میں چونکہ کمپنی انہیں بر اہ ِر است فروخت کر رہی ہوتی ہے اس لئے دونوں معاملے ایک ساتھ ہی کر لئے جاتےہیں۔
• یا مال فروخت کرنے کا معاملہ الگ ہوتا ہے اور جگہ خریدنے کا معاملہ الگ ہوتا ہے، جیسا کہ سیکنڈری کسٹمرز کو مال تو ڈسٹری بیوٹر ز دیتے ہیں، تاہم جگہ کرائے پر لینے کا کام کمپنی اپنے سیلز کے شعبہ کے ذریعہ کرتی ہے۔ان کے ساتھ جو معاہدہ نامہ (agreement) کیا جاتا ہے اس میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ اس اسٹور میں فلاں متعین جگہ اتنے عرصہ کیلئے ہم نے کرائے پر لے لی ہے اور اب اسٹور انتظامیہ اس بات کی پابند ہو گی کہ اس جگہ پر صرف ہمارا مال ہی رکھے گی،اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہم کسی بھی وقت چیک بھی کر سکتے ہیں۔ معاہدے کی بنیادی شقیں یہ ہوتی ہیں :
• دوکاندار طے شدہ دورانیے مثلاً ایک ماہ تک دو ہزار کے عوض اپنی دوکان کے شیلف نمبر ۔۔۔ میں ہماری مصنوعات رکھےگا۔
• دوکاندار طے شدہ دورانیے میں کسی اور کمپنی کی پروڈکٹ مذکورہ شیلف میں نہیں رکھے گا۔
• دوکاندار طے شدہ پروڈکٹ کے کم از کم 40 پیک اس مذکورہ دورانیے میں اس شیلف میں رکھے گا۔( یہ پیک دوکاندار کوہمارے ڈسٹری بیوٹر سے خرید نا ہونگے)اگلے ماہ کے لئے یہ معاہدہ تبھی برقرار رہے گا جبکہ دوکاندار سابقہ پروڈکٹس بیچ چکا ہو گا اور آئندہ ماہ مزید 40 پیک خریدے۔
اس ساری صور تحال کے پیش ِنظر اب سوال یہ ہے کہ ؛
1. کیا سپر اسٹور ز والوں کا ہم سے ہی خرید کردہ سامان رکھنے اور بیچنے کیلئے ہمیں اپنے اسٹور کی جگہ کرائے پر دے کر اس کامعاوضہ لینا ٹھیک ہے ؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟
2. بعض اسٹور مالکان کمپنی سے مال خریدنے سے پہلے یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہم آپ کا مال اسی وقت خریدیں گے جب آپ ہمارے اسٹور کا کوئی شیلف کرائے پر لیں گے۔ اس لئے مجبورا پہلے شیلف کے کرائے کا معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے بعدمال سپلائی کیا جاتا ہے ، اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا کسی شخص کیلئے کوئی چیز خریدنے کیلئے اس قسم کی شرط لگانا جائز ہے؟آج کل جتنے بڑے سپر اسٹور ز ہیں ان میں بھی وہ عموماً کسی کمپنی کی چیز اس وقت تک نہیں خریدتے، جب تک وہ اس کورکھنے کی جگہ (شیلف) کرایہ پر نہ لے لیں، اور عموماً یہ اسٹور زاپنی شرائط میں رد و بدل پر بھی آمادہ نہیں ہوتے، ایسی صورت میں کمپنی اور سپر اسٹورز کے لئے کیا حکم ہے؟
3. منسلک معاہدے میں کوئی شق شرعاً محلِ نظر ہو تو نشاندہی فرمادیں ؟ اس قسم کے معاہدے میں کن شرائط کو ملحوظ رکھاجائے براہ کرم تفصیل سےآگاہ فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں جب کمپنی کا نمائندہ با قاعدہ ایجاب و قبول کے ذریعہ مال فروخت کر دے تو مال خریدنےکے بعد سپر اسٹور اور دکان والے اس مال کے مالک ہو جاتے ہیں، اس کے بعد سپر اسٹور اور دکان والے کیلئے اپنا ہی مملوکہ مال اپنی دکان میں نمایاں جگہ پر رکھنے کیلئے جگہ کے کرایہ کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، اور عقدِ بیع میں اس طرح کی شرط لگانابھی درست نہیں۔البتہ اس کے متبادل کے طور پر درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔
1. کمپنی کی طرف سے اسٹور کو مال حتمی طور پر فروخت نہ کیا جائے، بلکہ سپر اسٹور میں فروخت کیلئے رکھاجائے اور وہ جتنا مال فروخت کریں انہیں اس کا کمیشن ملے، مال کے نفع و نقصان کا اُن سے تعلق نہ ہو، بلکہ وہ کمپنی کا نفع ونقصان ہو۔ اس صورت میں سامان چونکہ کمپنی ہی کی ملکیت ہے، اس لئے اگر سپر اسٹور والے یادکاندار یہ مال نمایاںشیلف میں رکھنے کیلئے شیلف کا کرایہ طلب کریں تو یہ صورت جائز ہے۔
2. دوسری صورت ”حیطِ شمن" کی ہے، یعنی کمپنی شیلف کا کرایہ دینے کے بجائے اپنے مال کی قیمت کم کر دے، مثلاً عقد کے وقت اسٹور والوں کے ساتھ یوں معاملہ کیا جائے کہ اگر آپ ہم سے خریدا ہوا مال نمایاں شیلف میں نہیں رکھیں گے تو اس کی قیمت (مثلا) مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہوگی، اور اگر نمایاں شیلف میں رکھیں گے تو قیمت پر اتفاق ضروری ہے۔ تاہم اس صورت میں مال فروخت کرنے کے بعد اسٹور والوں کو نمایاں شیلف میں رکھنے پر مجبورنہیں کیا جاسکتا،البتہ عقد سے پہلے یا بعد میں اُن سے وعدہ لیا جاسکتا ہے جس کی پاسداری اُن پر دیانتاًلازم ہو گی۔
3. سپر اسٹور کا شیلف کرایہ پر لینے کے بجائے کمپنی از خود شیلف تیار کروائے یا سپر اسٹور سے اُن کا شیلف خرید لے، پھر وہ شیلف سپر اسٹور میں رکھنے کیلئے ان سے جگہ کرایہ پر لے۔ اس صورت میں شیلف کمپنی کی ملکیت ہوگااور کرایہ اسٹور کی جگہ کا ہوگا۔ اس کے بعد کمپنی، سپر اسٹور والوں کو اس بات کا پابند بنا سکتی ہے کہ ہمارے مملوکہ شیلف میں آپ وہی سامان رکھ سکتے ہیں جس کی ہماری طرف سے اجازت ہو۔
4. نیز یہ بھی ممکن ہے کہ کمپنی پہلے سپر اسٹور سے (مثلا) پورا ایک شیلف کرایہ پر لیکر اس کے کچھ حصہ میں اپنا سامان کمیشن پر فروخت کرنے کیلئے وہاں رکھ دے، اس کے بعد سپر اسٹور کو مال فروخت کرتی رہے، اور سپر اسٹوروالوں کو اجازت دیدے کہ ہمارا رکھا ہوا سامان ہمارے کرایہ پر لئے ہوئے شیلف میں ایک طرف رکھ کر بقیہ حصہ میں آپ ہم سے خریدا ہوا اپنا سامان رکھ سکتے ہیں۔ البتہ اس صورت میں کمیشن پر فروخت کیلئے رکھا ہوا مال جب ختم ہو جائے تو دوبارہ کچھ مال برائے فروخت دینا ہو گا۔
الهداية في شرح بداية المبتدي - (٤٩/٣)
قال: "وكذلك لو باع عبدا على أن يستخدمه البائع شهرا أو دارا على أن يسكنها أو على أن يقرضه المشتري درهما أو على أن يهدي له هدية"؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين؛ ولأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع وسلف؛ ولأنه لو كان الخدمة والسكنى يقابلهما شيء من الثمن يكون إجارة في بيع، ولو كان لا يقابلهما يكون إعارة في بيع. وقد نهى النبي عليه الصلاة
والسلام عن صفقتين في صفقة
المغني لابن قدامة - (٤ / ١٧٦)
[مسألة النهي عن بيعتان في بيعة](3129) مسألة قال وإذا قال بعتك بكذا على أن آخذ منك الدينار بكذا لم ينعقد البيع وكذلك إن باعه بذهب على أن يأخذ منه دراهم بصرف ذكراه.وجملته أن البيع بهذه الصفة باطل لأنه شرط في العقد أن يصارفه بالثمن الذي وقع العقد به، والمصارفة عقد بيع فيكون بيعتان في بيعة قال أحمد هذا معناه، وقد روى أبو هريرة قال «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة» ، أخرجه الترمذي وقال حديث حسن صحيح وروي أيضا عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم وهكذا كل ما كان في معنى هذا مثل أن يقول بعتك داري هذه على أن أبيعك داري الأخرى بكذا أو على أن تبيعني دارك أو على أن أؤجرك أو على أن تؤجرني كذا أو على أن تزوجني ابنتك أو على أن أزوجك ابنتي ونحو هذا فهذا كله لا يصح. قال ابن مسعود الصفقتان في صفقة ربا وهذا قول أبي حنيفة والشافعي وجمهور العلماء.
الفتاوی الهندية - (١٣٦/٣)
رجل باع شيئا وقال بعت منك بكذا على أن أحط من ثمنه كذا جاز البيع ولو قال على أن أهب لك من ثمنه كذا لا يجوز ولو قال بعت منك بكذا على أن حططت عنك كذا أو قال على أن وهبت لك كذا جاز البيع لأن الهبة قبل الوجوب حط وفي الوجه الأول شرط الهبة بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان.
حاشية ابن عابدين (۵ / ۸۵)
(قوله وفيه نفع للمشتري) ومنه ما لو شرط على البائع طحن الحنطة أو قطع الثمرة وكذا ما اشتراه
على أن يدفعه البائع إليه قبل دفع الثمن، أو على أن يدفع الثمن في بلد آخر، أو على أن يهب البائع منه كذا، بخلاف على أن يحط من ثمنه كذا؛ لأن الحط ملحق بما قبل العقد ويكون البيع بما وراء المحطوط بحر.. والله سبحانه وتعالى لاعلم بالصواب