عرض ہے کہ ہم ٹیکسٹائیل برآمد کنندگان مفتیانِ دین سے ایک اہم کاروباری مسئلے کی وضاحت، درست یا غلط ہونے کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں جانناچاہتے ہیں۔ ہم برآمد کنندگان کا تعلق ویلیوایڈیڈ ٹیکسٹائیل سیکٹر سے ہے یعنی ہم مارکیٹ سے خام مال سوتی دھاگہ وغیرہ خرید کر ان سے ملبوسات اور مصنوعات بنا کرمختلف ممالک کو برآمد کرتے ہیں ملبوسات اور ٹیکسٹائیل مصنوعات کے آرڈرز کی تعمیل ہمیں تین سے چار ماہ میں کرنی ہوتی ہے جس کے لئے ہم مختلف خام مال آج کےنرخوں پر خریدتے ہیں۔ تیار ملبوسات اور مصنوعات برآمد کرنے کے بعد ہمیں مال کی برآمدی آمدنی ڈالر یا یورپی کرنسی یورو کی شکل میں 4 سے 6 ماہ میں ملتی ہے یہ ڈالریا یو رو ہمیں وصول ہونے والےدن انٹر بینک مارکیٹ کے اس روز کے نرخوں پر پاکستانی روپے میں تبدیل کرواتے ہیں۔
ڈالر یا یورو فروخت کرنے کے دن ڈالر کے مقابلے میں شرح مبادلہ ان نرخوں سے کافی کم و بیش ہوتی ہے جس دن مال برآمد کرتے ہیں ان غیر معمولی حالات میں برآمد کنندگان موجودہ بینکاری نظام میں بے یقینی سے بچنے کے لئے جس دن مال برآمد کرتے ہیں بینکوں کو ڈالر یا یو رو فروخت کر دیتے ہیں تا کہ اس دن کی مطابقت سے اور Exchange Rate سے پاکستانی رو پیہ ا ن کے لئے مختص کر دیا جائے مثال کے طور پر اس کو ہم اس طرح واضح کرتے ہیں کہ اگر یہی مال پاکستان میں 4سے6ماہ کی بنیاد پر پاکستانی روپیوں میں فروخت کیا جائے تو فروخت کرنے والے کو اپنے معین وقت پر اتنا ہی روپیہ ملتا ہے جتنا کا مال ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح یہی مال اگر100,000 روپیہ کا ہوا اور اس کو برآمد کیا جائے تو آج کے نرخ یعنی 98 = $1 مطابق اس کی قیمت $1,020 ہو گی اب 4 سے 6 ماہ کے بعد Exchange Rate کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں برآمد کنندگان کو بھی روپیہ 100 = $1 سے بھی مل سکتا ہے اور کبھی 92 = $1 سے بھی یعنی خواہ مخواہ بر آمدکنندگان کم شرح سے نقصان میں آجاتا ہے جبکہ وہی مال روپوں میں فروخت کرتا ہے تو کوئی فاضل نفع نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ:
1. ہم ٹیکسٹائیل برآمد کندگان جب اپنا ما ل بر آمد کرتے ہیں تواس کی ادائیگی ہمیں عام طور پر 4 سے6 ماہ کی مدت میں ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ اس ادائیگی کو جوکہ مستقبل قریب میں متوقع ہے مالیاتی اداروں سے ترسیل زر کی ادائیگی سے پہلے مختص کرنا از روئے شریعت جائز ہے یا نہیں جبکہ مال پہلے ہی بر آمد کیا جاچکا ہے محض زرمبادلہ کی رقم آنا باقی ہے؟
2. اسی طرح اسلامی بینکاری نظام میں اسلامی بینک ڈالر یا یورو کی پیشگی فروخت کے وعدے ( Promise to Sale) کے تحت انجام دیتے ہیں کیا ان بینکوں کا یہ پیشگی فروخت کا وعدہ درست ہے؟
(1)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ صورت (forward booking) کہلاتی ہے جس میں مثلاً چار یا چھ ماہ بعد حاصل ہونے والے ڈالر یا یورو کی بیع آج کے ایکسچینج ریٹ کے طور پر کی جاتی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح عقد کرنا جائز نہیں، کیونکہ کنوینشل بینک میں ڈالر کی بکنگ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بکنگ کے وقت مذکورہ ڈالر /یور و آج کے ایکسچینج ریٹ مثلاً 98 روپے کے عوض مستقبل کی تاریخ میں خرید لئے گئے چنانچہ مجلس عقد میں سائل نے نہ ڈالر بینک کو دیئے اور نہ ہی بینک نے پاکستانی روپے سائل کو دیئے لہذا ایسی بیع جس میں ثمن اور مبیع دونوں ادھار ہوں "بیع الکالئی بالکالی "کہلاتی ہے جو شرعاًنا جائز ہے لہذا اس سے اجتناب کرنالازم ہے (التبویب: 55/1633)
(2) ۔۔۔ جو غیر سودی بینک مستند علمائے کرام کی زیر نگرانی کام انجام دے رہے ہیں ان میں مذکورہ معاملہ یکطرفہ یا دو طرفہ وعدۂ بیع کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لہٰذا ایسے اداروں کے ساتھ مذکورہ معاملہ کر ناشر عاً درست ہے (ماخذہ فقہی مقالات: 81/3). واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب
.