Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ملازمین کے فنڈ کی بقایا جات کی ادائیگی میں سود شامل کرنے کا شرعی حکم


سوال

کمپنیز پرافٹ (Workers Profit Participation Fund) ایکٹ ، 1968 کے مطابق، کاروباری ادارے اپنےٹیکس کی ادائیگی سے قبل منافع کا 5 فیصد سالانہ اس فنڈ میں دیتے ہیں، جو صرف کم از کم اجرت حاصل کرنے والے ورکر ز کو دیا جاتا ہے۔

اس کا مقصد یہ ہے کہ ملازمین کو کمپنی کی ترقی اور منافع میں شراکت کا موقع ملے۔ فنڈ کی رقم کمپنی ٹرسٹ کی ملکیت میں دے دیتی ہے۔ فنڈ کا انتظام متعلقہ ایکٹ، اسکیم، اور فنڈ کے لیے قائم کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس کے بورڈآف ٹرسٹیز کے اراکین کی کل تعداد چار ہوتی ہے: دو ممبر کمپنی کے لیبر ز کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں اور دو انتظامیہ کے ذریعے نامزدکیے جاتے ہیں۔ بورڈ کے چیئر مین کا انتخاب باری باری منتخب اور نامزد ٹرسٹیوں میں سے ہوتا ہے۔ بورڈ آزادانہ طور پر کام کرتا ہے کمپنی کااس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا البتہ وفاقی حکومت کی نگرانی اور ہدایات کے تابع ہے۔

کمپنی نے کئی سال سے ملازمین کو اس مد میں ادائیگی نہیں کی ہے ، اب کمپنی اپنے ملازمین کے بقایا جات کی ادائیگی کی ترتیب بنارہی ہے جس میں کمپنی کو کچھ امور میں شرعی رہنمائی در پیش ہے:

1. کمپنی نے چوں کہ کئی سال سے اس فنڈ کی مد میں ملازمین کی ادائیگی نہیں کی اس دورانیے میں کئی ملازمین آتے جاتے رہے جن میں سےاکثر ملازمین کا مکمل ریکارڈ محفوظ ہے سوائے ابتدائی دو سال کے ملازمین کہ ان کا مکمل ریکارڈ محفوظ نہیں ہے البتہ اس عرصے میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد تو معلوم ہے لیکن تعیین میں دشواریوں کا سامنا ہے مثلاً: بعض ملازمین کے نام معلوم ہیں لیکن رابطہ نمبر اوررہائشی پتہ نہ ہونے کے باعث ان سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔ ایسی صورت میں کمپنی اس فنڈ کی ادائیگی ان سالوں میں اس مدت کے معلوم ملازمین میں تقسیم کر سکتی ہے ؟ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے مثلاً سو ملازمین تھے اور ان میں سے پچاس کا ریکارڈ محفوظ ہے اور پچاس کامعلوم نہیں ہو پارہا تو ایسی صورت میں پچاس نامعلوم افراد کا حصہ بھی ان معلوم افراد کو دے دیا جائے۔اور اگر ہم نامعلوم افراد کا حصہ معلوم افراد میں تقسیم کر دیں (ملازم کی تعداد کے اعتبار سے رقم کی ادائیگی کا کرنا بھی ضروری ہے انتظامی مجبوریوں کے باعث ) پھر مستقبل میں کوئی ملازم جس کی معلومات نہیں ہو سکی تھی وہ اگر خود مطالبہ کر دے یا کمپنی کا اس سے رابطہ ہو جائے تو اس صورت میں کیا کمپنی پر اس کی ادئیگی دوبارہ لازم ہوگی ؟

2. اسی فنڈ کے ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی ملازم کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی وجہ سے کمپنی سے نکالا گیا تھا کیا اس ملازم کو تنبیہا اس فنڈ کی رقم نہ دی جائے تو اس کی گنجائش ہے؟

3. اسی طرح کوئی ملازم کسی مالی بے ضابطگی میں ملوث رہا ہو اور اپنے جرم کا اقراری بھی ہو تو ایسی صورت میں اس کا فنڈ روکا جاسکتا ہے یا نہیں؟ نیز مغبونہ ر قم کو اس کے فنڈ سے منہا کیا جا سکتا ہے؟

4. اس فنڈ کی ادائیگی میں ایک پابندی یہ بھی ہے کہ اگر ملازمین کے کئی سالوں کے بقایا جات باقی ہوں تو کمپنی اس کی ادائیگی سود سمیت کرے گی۔ کیا کمپنی کے ذمہ اس اضافی (سود) رقم کی ادائیگی ضروری ہے؟ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کمپنی اپنے ریکارڈ میں سود کی ادائیگی کو انتظامی مجبوریوں کے باعث ظاہر کرے گی چاہے ملازمین کو اس کی ادائیگی کی گئی ہو یا نہیں۔ بغیر ادئیگی کیے اس کو اپنے ریکارڈ میں ظاہرکرنے کے حوالے سے بھی رہنمائی درکار ہے۔
5. اس رقم کی ادائیگی میں کمپنی کو ایک مسئلہ یہ بھی در پیش ہے کہ اگر کمپنی کیش کے بجائے یہ رقم ملازم کے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے اداکرے تو ایسی صورت میں بعض دفعہ معمولی بینک چارجز بھی ادا کرنے پڑتے ہیں، کیا کمپنی اس بینک چارجز کو ملازم کی رقم سے منہا کر سکتی ہے؟

وضاحت ! مذکورہ کمپنی میں اس فنڈ کیلئے جو ٹرسٹ قائم ہے ملازم اس ٹرسٹ کو درخواست وغیرہ کے ذریعہ وکیل نہیں بناتا، ممبران کا انتخاب ایک قانونی تقاضہ کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ٹرسٹ ملا زمین کا وکیل نہیں ہوتا ، نیز کمپنی نے گزشتہ سالوں کی اس مد کی رقم ٹرسٹ کو بھی نہیں اور نہ ہی ملا زمین کودی۔

جواب

(1)۔۔۔سوال میں ذکر کردہ تفصیل کی رُو سے کمپنی مذکورہ فنڈ (Workers Profit Participation Fund)کی رقم اس ٹرسٹ کو دینے کی پابند ہے جو قانون کے مطابق اس فنڈ کے انتظام کے لئے قائم ہوتا ہے، اور یہ ٹرسٹ وفاقی حکومت کی نگرانی اور ہدایات کا تابع ہوتا ہے، گویا یہ ٹرسٹ ملازمین کے لئے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قانونی وکیل (وکیلِ مسخٗر ) ہے، لہذا کمپنی گزشتہ سالوں کی اس فنڈ کی رقم مذکورہ ٹرسٹ کو دیدے، پھر ٹرسٹ کو جن ملازمین کےبارے میں معلوم ہو سکے ان کے زمانہ ملازمت کا مذکورہ فنڈ اُن کو دیدیا جائے ، اور جن ملازمین کے بارے میں معلوم نہ ہو سکے تو ٹرسٹ اُن کی رقم اپنے پاس امانت کے طور پر رکھے اور اُن ملازمین کی تلاش میں ممکن ذرائع استعمال کر کےپوری کوشش اور جستجو کرے لیکن اگر کسی بھی طرح کمپنی چھوڑ جانے والے ملازمین کے بارے میں معلوم نہ ہو سکے تو اُن کے حصے کی رقم اُن کی طرف سے صدقہ کر دے، اور صدقہ کرنے میں یہ رقم کمپنی کے ایسے ملازمین کو بھی دی جاسکتی ہے جوضرورتمند اور مستحقِ زکوٰۃ ہوں، بلا تفریق موجود ملازمین کو دینا درست نہیں۔تاہم اگر صدقہ کرنے کے بعد ملازم کے بارے میں علم ہو جائے یا وہ خود کمپنی سے رابطہ کرلے تو اُسے صدقہ کےبارے میں بتادیا جائے ، اگر وہ اس صدقہ پر راضی ہو تو صدقہ درست ہو جائے گا اور وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور اگر وہ صدقہ پر راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کی رقم ادا کرنا ٹرسٹ کے ذمہ لازم ہوگا۔
(2)۔۔۔ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی وجہ سے نکالے گئے ملازم کو اس کے مذکورہ فنڈ کی رقم سےمحروم کرنا شرعاًتعزیر مالی ہے جو حضرات فقہاء احناف کے نزدیک جائز نہیں۔ لہذا ایسے ملازم کو اس کے فنڈ کی رقم نہ دینا درست نہیں۔

(3)۔۔۔جو ملازم مالی بے ضابطگی میں ملوث رہا ہو اور گواہوں یا خود اُس کے اقرار سے اس کے ذمہ کمپنی کی رقم نکلتی ہو تو اُس کے ذمہ واجب کمپنی کی رقم کے بقدر اس کے فنڈ سے رقم روکنا درست ہے۔

(4)۔۔۔سود کا لین دین ناجائز اور حرام ہے لہذا سود کی ادائیگی کمپنی کے ذمہ لازم نہیں ہے، اور کوئی رقم دیئے بغیرکاغذات میں ادائیگی ظاہر کرنے سے غلط بیانی کا گناہ ہوگا۔

(5)۔۔۔ اگر کیش رقم لینے کے بجائے بینک اکاؤنٹ میں یہ رقم منتقل کرنے کا مطالبہ ملازمین کی طرف سے ہو تو کمپنی اس کے چارجزملازمین کی رقم سے کاٹ سکتی ہے، لیکن اگر کمپنی اپنی سہولت کے لئے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرے توملازم کی رقم سے چارجز
کا ٹنا درست نہیں۔

الهداية (۴۱۹/۲)
ولا يتصدق باللقطة على غني " لأن المأمور به هو التصدق لقوله عليه الصلاةوالسلام: " فإن لم يأت " يعني صاحبها " فليتصدق به " والصدقة لا تكون على غني فأشبه الصدقة المفروضة" وإن كان الملتقط غنيا لم يجز له أن ينتفع بها.

الدر المختار (۲۵۷/۴)
فينتفع الرافع بها لو فقيرا و إلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه

مجلة الاحكام العدلية
المادة (1791) الوكيل المسخر هو الوكيل المنصوب من قبل القاضي للمدعى عليه الذي لم يمكن إحضاره للمحكمة.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2571/54 المصباح : MDX: 038
21 0