ہماری ایک دواساز کمپنی ہے ہم دکانداروں کو دوائی بیچنے کے لئےفروخت کردیتے ہیں بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ وہ دوائی ابھی فروخت نہیں ہوئی ہوتی کہ دکاندار کے پاس پڑی پڑی ایکسپائر ہوجاتی ہے، اب تک ہم اخلاقی طور پر وہ دوائی واپس لے کر اس کے بدلے دوسری فریش دوائی دے دیتےہیں،پوچھنا یہ ہے کہ دوکاندار کو جب دوائی فروخت کردی گئی اور اس کے اوپرایکسپائری تاریخ بھی لکھی ہوتی ہے تو کیا ایسی صورت میں جب وہ ایکسپائر ہو تو شرعاً ہمارے ذمہ لازم ہے کہ ہم وہ دوائی بدل کر دیں اور کیا دکاندارہم سے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ جب کہ یہ سب کچھ عقد میں طے نہیں ہواہوتا اور اگر عقد میں یہ طے ہوجائے کہ ایکسپائر ہونے کے بعد بدل کر دی جائےگی تو کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں ایک مرتبہ دوائی فروخت کر دینے کے بعد ایکسپائر ہونے کی صورت میں اس کو واپس کرنا اصلاً تو آپ
کے ذمے لازم نہیں، لیکن دوائی دکاندار کو فروخت کرتے وقت اگر یہ شرط لگائی کہ ایکسپائر ہونےکی صورت میں فیکٹری والے اس کو واپس لینے کے ذمہ دار ہونگے یا قانونا ًآپ اس کے پابند ہوں تو حسب ِوعدہ اورقانون کے مطابق ایکسپائر دوائیں لےکر نئی دوائیں دے دینی ضروری ہیں ۔
الدر المختار مع رد المحتار (5 / 84)
(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فسادالعقد بسبب شرط (لا) يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو فيه نفع (لمبيع) هو من أهل (الاستحقاق للنفع بأن يكون آدميا، ولم يجرالعرف به و لم يرد الشرع بجوازه أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به کخیار شرط فلا فساد كشرط أنيقطعه) البائع (ويخيطه قباء)
الهداية شرح البداية((3 / 48
ثم جملة المذهب فيه أن يقال كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري لا يفسد العقد لثبوته بدون الشرط وكل شرط لا يقتضيه العقدوفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقدعن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقدعن مقصوده إلا أن يكون متعارفا لأن العرف قاض على القياس. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب