میں ایک کمپنی میں بطور انچارج شعبہ خرید (Purchase Dept) کام کرتا ہوں، اس شعبہ کی بنیادی ذمہ داری کمپنی کے لئے اشیاء کی خریداری کرنا ہوتا ہے، ادارہ (کمپنی) کو کسی بھی سامان کی ضرورت ہو اس شعبہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں اور سپلائیر ز سے رابطہ کر کے وہ چیز خرید لیں، کمپنی کی طرف سے یہ شعبہ اس بات کا بھی پابند ہوتا ہے کہ متعلقہ چیز کے سپلائی کرنے والوں میں سے جس کےریٹ اور معیار سب سے اچھا ہو اسی سے اشیاء خریدی جائیں۔
دوسری طرف جو ادارے یا سپلائیر ز ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم ان سے خریداری کریں، چنانچہ مختلف سپلائیر زہم سے رابطہ کرتے ہیں اور ہمیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کمپنی کا آرڈر آپ ہمیں دیا کریں اور اس پر وہ ہمیں ذاتی طور کچھ کمیشن نفع یا گفٹ وغیرہ دیتے ہیں ۔
اب اگر ان کا سامان کمپنی کی شرط کے مطابق معیاری اور کم ریٹ والا ہو اور اس سپلائر کو آرڈر دینے میں کمپنی کو کوئی نقصان بھی نہ ہو توکیا اس سپلائز کو آرڈر دینا جائز ہو گا اور جو نفع اور گفٹ وغیر ہ وہ ہمیں دیں ہمارے لئے حلال ہو گا؟اگر یہ رشوت ہے اور حرام ہے (بقول ایک عالم صاحب) تو کیا یہ صورت ہو سکتی ہے کہ کسی سپلائیر کے ساتھ میں شرکت کا معاملہ کرلوں اورکمپنی کا آرڈر اپنی شراکت دار سپلائیر کو جاری کر دیا کروں، اس آرڈر پر جو نفع ہو گا میری شرکت کے متناسب مجھے حصہ مل جائے گا اور سامان بھی کمپنی کی مذکورہ شرط کے مطابق ہو گا اور کمپنی کو کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا ؟واضح رہے کہ یہ کام ہم کمپنی کے ذمہ داران کے علم میں لائے بغیر کریں گے کیونکہ ادارے کی جانب سے ہمیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دی جاتی کہ ہم اپنے ذاتی فائدے کی خاطر کمپنی کے آرڈر اپنے شراکت دار ادارے کو جاری کریں، بلکہ علم ہونے پر ایسے ملازم کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔
(1)۔۔۔مسئولہ صورت میں اگر آپ کسی سپلائر سے کمپنی کی شرط کے مطابق مال خریدتے ہیں (یعنی اس کا مال معیاری بھی ہے اور سب سے کم ریٹ والا بھی ہے) تب بھی آپ کے لیے اس سپلائر سے معاہدہ کر کےکمیشن یا کوئی نفع لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ کمپنی کے ملازم ہیں اور کمپنی کی شرط کے مطابق (معیاری اورسب سے کم ریٹ والا) مال خرید نا آپ کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے، اور کمپنی آپ کو اسی بات کی تنخواہ دیتی ہے، اس لیے آپ اس سپلائر سے مال خرید کر اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ اور اپنے ذمے لازم کام انجام دینے پر کوئی کمیشن لینا رشوت ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔ لہذا اس کمیشن لینے سے اجتناب کرنالازم ہے۔
نیز مذکورہ صورت میں سپلائر کے گفٹ کا حکم یہ ہے کہ اگر ان تحفے تحائف سے مقصود سپلائر کی کمپنی کی تشہیر ہو جیسے اس کمپنی کے نام سے بنی ہوئی چھوٹی موٹی اشیاء مثلاً کیلنڈر ، قلم اور لیٹر پیڈ وغیرہ جو کہ عام طور پر کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے بلا امتیاز تمام خریدار کمپنیوں کو دیتی ہیں، تو اس قسم کی چیزیں لینا آپ کے لیے درست ہے، لیکن اگر قیمتی اشیاء دی جائیں اور اس سے مقصود یہ ہو کہ آئندہ آپ ہر حال میں اسی سپلائر سے مال خرید یں (خواہ معیار اور ریٹ سب سے اچھا نہ ہو)، اور آپ بھی اس گفٹ کی وجہ سےآئندہ ہر حال میں اسی سپلائر سے مال خریدنے پر اخلاقی دباؤ محسوس کرتے ہوں ( اور اس سپلائر کا مال معیاری نہ ہونے یا ریٹ زیادہ ہونے کی صورت میں دوسرے سپلائر سے مال خریدنے میں رکاوٹ محسوس کرتےہوں، اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے ) تو اس صورت میں یہ گفٹ رشوت ہے۔ سپلائر کے لیے یہ گفٹ دینا اور آپ کے لیے لینا جائز نہیں ہے۔ (ماخذہ تبویب: 802/74 بتصرف)
(2)۔۔۔ سوال میں مذکور وضاحت کے مطابق کمپنی کی طرف سے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ آپ کمپنی کا مال اپنے شراکت دار ادارے سے خریدیں، بلکہ اس کام کی صراحۃ ممانعت ہے، اس لیےاگر آپ کسی سپلائر کے ساتھ شراکت کر لیں، اور پھر وہ شراکت دار سپلائر آپ کو کمپنی کی شرط کے مطابق مال بیچے تب بھی آپ کے لیے کمپنی کا مال اس سپلائر سے خرید نا جائز نہیں ہو گا۔
صحيح البخاري كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا ، بَاب مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الْهَدِيَّةَ لِعِلَّةٍ (353/1 ط قديمي)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَزْدِ - يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْأُنْبِيَّةِ – عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِي لِي قَالَ: فَهَلًا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ فَيَنْظُرَ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِيَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا حُوَارٌ أَوْ شَاةً تَبْعَرُ ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ حَتَّى رَأَيْنَاعُفْرَةَ إِبْطَيْهِ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلاثاً.
سنن الترمذي، أبواب الأحكام عن رسول الله الا الله باب ما جاء فى الراشي والمرتشي (1/ 248 ط قديمي)
عن عبد الله بن عمرو قاله لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي.
إعلاء السنن، كتاب القضاء، باب الرشوة، تحقيق معنى الرشوة لغة وشرعا(64/15 ط ادارة القرآن)
والحاصل أن حد الرشوة هوما يؤخذ عما وجب علي الشخص سواء كان واجباعلى العين أو على الكفاية وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وأمثاله...... أو كان واجباًعقداً كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم أو عليهم كأعوان القاضى وأهل الديوان وأمثالهم، كذا في " الكشاف " للتهانوى.
حاشية ابن عابدين، كتاب القضاء ، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية(362/5 ط سعيد)
وفي الفتح ثم الرشوة أربعة أقسام منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي، وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم ، وهو كذلك ولوالقضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.
بدائع الصنائع كتاب النفقة، فصل في بيان مقدار الواجب من النفقة(430/3 ط رشيديه)
ولو استأجرها (زوجته) للطبخ والخبز ؛ لم يجز ، ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك؛ لأنها لو أخذت الأجرة لأخذتها على عمل واجب عليها في الفتوى فكان في معنى الرشوة فلا يحل لها الأخذ.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام الكتاب الحادى عشر: الوكالة ، الباب الثالث الفصل الثانى : الوكالة بالشراء (3 / 599 ط رشيديه)
المادة (1488) - (لو باع الوكيل بالشراء ماله لموكله لا يصح) ، ليس للوكيل بالشراءأن يشتري للموكل أربعة أنواع من الأموال -1 - ليس للوكيل بالشراء أن يشتري ماله لموكله....2- ليس للوكيل بالشراء أن يشتري المال الذي باعه موكله لموكله ... 3 -ليس للوكيل بالشراء أن يشتري لموكله مال من لا تجوز شهادتهم له، كأصوله وفروعه وزوجته وشريكه فيما يشتركان به وابنه الصغيروشريك المفاوضة؛ لأن مواضع التهمةمن الوكالة وفي هذه تهمة أيضا بدليل عدم قبول الشهادة. ولأن المنافع بينهم متصلة فصار بيعا من نفسه من وجه .. ...... لكن يستثنى من هذا الضابط الثالث ثلاثة فروع: ............ والله سبحانه وتعالى أعلم وعلمه أتم وأحكم