درج ذیل مسائل میں رہنمائی درکار ہے:
1. ہماری فیکٹری اگر نقد (Cash)ادائیگی دوکانداروں کو کرتی ہے تو اس پر گورنمنٹ تقریباً %27 Tax لگاتی ہے اور اگر ہم Chequeچیک کی صورت میں ادائیگی کرتے ہیں تو گورنمنٹ کو % 7Taxدینا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں ایک شخص سے ایک ماہ کے ادھار پر ایک لاکھ نقدلے لیتے میں اور نقد دوکانداروں کو ادا کرتے رہتے ہیں جو ہم اپنے کھاتوں میں نہیں دیکھاتے اور اُس شخص کو ایک لاکھ کے بدلے میں ایک لاکھ 17 ہزار Chequeچیک کی صورت میں ادا کرتے ہیں اور کھاتوں میں اس کو دیکھاتے ہیں تاکہ گورنمنٹ کےاضافی taxسے بچا سکے۔ جو ہمیں ادا کرنا پڑ تاہے اگر ہم نقد (Cash) ادا کریں تو یہ عمل شریعت کے مطابق کیسا ہے ؟
2. ہم فیکٹری میں مرغی ، دالیں ، سبزیاں، دودھ وغیرہ دوکانداروں سے منگواتے ہیں اور ایک شخص ہمارے کہنے پرایک لاکھ ادا کرتا ہے ان دوکانداروں کو ہم ایک مہینےبعد اس ایک لاکھ کے بدلے میں ایک لاکھ 17 ہزار ادا کرتے ہیں چیک کی صورت میں کیا یہ عمل شریعت کے مطابق درست ہے۔
3. ایک شخص ہمارے کہنے پر دوکانداروں سے سبزیاں ، دودھ دالیں، مرغیاں ہمیں تقریباً ایک لاکھ کی خرید کر دیتا ہےاور اپنے پاس سے نقد (Chash) ادا کر کے دکانداروں کو دیتا ہے اور ہم اس کے عوض ایک ماہ بعد اس کو ایک لاکھ 17 ہزار چیک (Cheque)کی صورت میں ادا کرتے میں ایسا کرنا شریعت کے مطابق درست ہے؟یہ صورت پہلی والی صورت سے مختلف ہے کیونکہ اس میں یہ شخص کمپنی کو ایک لاکھ دینے کے بجائے دکانداروں کو ایک لاکھ کی نقد خود ہی ادائیگیاں کرتا ہے اس طرح کیش رقم کمپنی میں نہیں آتی۔
(1)۔۔۔کسی سے ایک لاکھ روپے نقد ادھار لےکر اس کو ایک لاکھ سترہ ہزار اداکرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ یہ سود ہے۔ اگرچہ یہ ادائیگی چیک کی شکل میں ہو۔
(2) ۔۔۔ مذکورہ شخص کا آپ کے کہنے پر دکانداروں کو اپنی طرف سے ایک لاکھ روپے ادا کرنا آپ کو قرض دینے کے مترادف ہے لہذایہ صورت بھی دوسرے نمبر پر مذکور صورت کی طرح ناجائز اور حرام ہے اور یہ بھی سودی معاملہ ہے۔
(3)۔۔۔یہ صورت بھی نمبر (1) اور نمبر (2) کے حکم میں ہے اور سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ کیونکہ مذکورہ شخص دکانداروں کو جور قم دیتا ہے وہ چونکہ کمپنی کا قرض ہے اور وہ کمپنی کے کہنے پر دکانداروں کو ادا کر رہا ہے اس لئے اس میں اور اوپر والی صورت میں شرعی حکم کے اعتبار سے فرق نہیں واللہ اعلم بالصواب
.