عرض یہ ہے کہ احباب دارالافتاء جامعۃ الرشید نے بعنوان "بغیراطلاع ملازمت چھوڑنے پر تنخواہ کاٹنے کاحکم " پر ایک فتویٰ (61281) مرحمت فرمایا تھا۔ اس فتوے کی روشنی میں ہم نے اپنے ادارے کے معاہدہ ملازمت " میں اس عنوان کے ذیل میں کچھ ترامیم کی ہیں۔ (معاہدہ ملازمت کی کاپی استفتاء کے ساتھ لف ہے)
5.2 After confirmation, you may terminate this employment agreement and resign by giving (30) thirty days notice in writing. In case you do not give (30) thirty days notice then you are liable to provide an acceptable substitute to the company whose salary shall
be paid by you and if you dont provide an alternative you here by authorize company to hire a substitute employee designate in your replacement whose one-month salary (that must not exceed your current gross salary) shall be compensated by you. Company may
terminate without assigning any reason, the employment agreement by (30) thirty days notice or forthwith without notice, by paying (30) thirty days gross salary in lieu thereof.
معاہدےکی شق نمبر5.2کےمطابق ملازم کواس بات کااختیارہےکہ وہ اپنی ملازمت کی توثیق(Confirmation)کے بعد جب چاہے معاہدہ ملازمت سے 30 دن قبل تحریری اطلاع ( Notice Period)کے ساتھ مستعفی ہو سکتا ہے ، اگر ملازم یہ مدت پوری کرنے سے قاصر ہو تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے متبادل کا انتظام کرے جس کی تنخواہ اس کے اپنے ذمہ ہوگی البتہ اس کی مکمل تنخواہ اس کو ادا کر دی جائے گی۔ تاہم اگر ملازم متبادل بھی نہ پیش کر سکا تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جائے گی کہ ملازم نے متبادل کاانتظام کرنے کی ذمہ داری کمپنی کے سپرد کر دی ہے اور کمپنی اس متبادل کی تنخواہ (جو کہ اصل ملازم کی مجموعی تنخواہ سے زیادہ نہ ہو ) اصل ملازم کی تنخواہ سے ادا کرے گی۔ جب کہ اصل ملازم کو تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
مقصد اس شق سے ملازم کو بغیر اطلاع ملازمت چھوڑنے پر تنبیہ کرنا ہے اور یہ تنبیہ اسی وقت ہو سکتی ہےجب کہ اس کی تنخواہ سے کٹوتی ہو، لہذا متبادل پیش نہ کرنے کی صورت میں ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی کر لی جائےگی خواہ نئے ملازم کی تقرری فوری ہو (سابقہ ملازم کے نوٹس پیریڈ میں) یا بعد میں اور کٹوتی شدہ تنخواہ سےنئے ملازم کی تنخواہ ادا کی جائے گی۔
مفتیانِ کرام سے گزارش ہے کہ ہماری اس پالیسی کو شرعی نقطہ نظر سےپر کھ کر ر ہنمائی فرمائیں کہ آیا ہماری یہ پالیسی شرعی اُصولوں کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اگر یہ پالیسی درست نہیں تو مذکورہ فتویٰ میں ذکر کردہ صورت کی عملی تکییف کی کیا صورت بنے گی ؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
اجارہ کا معاملہ ختم کرنے کے سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اس میں فریقین کی رضامندی یا قاضی کا فیصلہ ہونا ضروری ہے ، اس کے بغیر اجارہ کے معاملہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر کسی فریق کو کوئی معتبر عذر لاحق ہو اور اجارہ کے معاملہ کو ختم کرنا اس کی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں دوسرےفریق کی رضامندی کے بغیر بھی اجارہ کے معاملہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
نیز فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تعزیرِ مالی کے عدم جواز کی بھی صراحت کی ہے اور بعض حضرات نے اس مسئلہ پر اجماع کا قول بھی نقل کیا ہے ، اس لیےملازم کے بغیر کسی وجہ کے بھی ملازمت چھوڑ جانے کی صورت میں اس پر کسی قسم کا مالی جرمانہ یا اس کی تنخواہ سےکٹوتی کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
جہاں تک گزشتہ فتویٰ میں ذکر کی گئی متبادل صور توں کا تعلق ہے تو اصل متبادل پہلی صورت ہی ہے، جس میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ ملازم ایک ماہ پیشگی اطلاع نہ دینے کی صورت میں ایک ماہ اضافی کام کرنے کا پابند ہوگا، خواہ وہ خود کام کرے یا کسی دوسرے سے کروائے، اس صورت میں گزشتہ ملازم کو اس مہینے کی پوری تنخواہ دی جائے گی۔
گزشتہ فتویٰ میں ذکر کی گئی دوسری صورت میں کچھ ابہام باقی رہ گیا ہے، وہ یہ کہ ایک ماہ اضافی کام کرنےکے لیے جب کمپنی اپنی طرف سے ملازم مقرر کرے گی تو اس کی تنخواہ کے لیے سابقہ ملازم کی گزشتہ مہینے کی تنخواہ نہیں روکے گی، جیسا کہ فتوی کی عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے، بلکہ اسی رواں مہینے میں سابقہ ملازم کو کام کرنے پر جو تنخواہ ملنا تھی وہی تنخواہ موجودہ ملازم کو دی جائے گی۔ اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ کمپنی ملازم سے اختیار نہ بھی لے تو بھی اس کو نیا ملازم رکھ کر سابقہ ملازم کو دی جانے والی تنخواہ اس کو دینے کی شرعاًاجازت ہے، کیونکہ سابقہ ملازم اجارہ کا معاملہ ختم ہونے کی وجہ سے تنخواہ کا حق دار نہیں رہا۔
یہ بھی یادر ہے کہ اگر ملازم نے کسی معتبر وجہ کی بنیاد پر اجارہ کا معاملہ ختم کیا اور اس نے کمپنی/ادارے کےسامنے معتبر ذرائع سے اپنا عذر بھی پیش کر دیا تو ایسی صورت میں ملازم کو شرعاً ایک ماہ اضافی کام کرنے کا پابندنہیں بنایا جاسکتا، ایسا کرنے سے کمپنی گناہ گار ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين:باب فسخ الإجارة: تفسخ بالقضاء أو الرضا (76/6) دار الفكر-بيروت
قال ابن عابدين الشامي: (قوله تفسخ) إنما قال: تفسخ، لأنه اختار قول عامة المشايخ وهوعدم انفساخ العقد بالعذر وهو الصحيح نص عليه في الذخيرة، وإنما لم ينفسخ لا لإمكان الانتفاع بوجه آخر؛ لأنه غير لازم.
سنن ابن ماجهت الأرنؤوط (430/3) دار الرسالة العالمية:
حدثنا عبد ربه بن خالد النميري أبو المغلس، حدثنا فضیل بن سلیمان، حدثنا موسى بن عقبة، حدثنا إسحاق بن يحيى بن الوليد عن عبادة بن الصامت: أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم - قضى أن لا ضرر ولا ضرار.والله سبحانه و تعالی اعلم