Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


کمپنی کی زکوٰۃ کے حساب میں گریجویٹی اور ورکرز و یلفیئر فنڈز کا کیا حکم ہے؟


سوال

ہمیں اپنی کمپنی کی زکاۃ بنانے کے سلسلے میں چند مسائل درپیش ہیں ان سے متعلق شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
ہمارے یہاں ملازمین کے لئےWWF ( ور کرز ویلفیئر فنڈ) اور workers profit participation fund جس کو WPPFکہاجاتا ہے کہ نام سے کٹوتی کی جاتی ہے اسی طرح ملازمین کی گریجویٹی کے نام سے بھی ایک مخصوص رقم الگ کی جاتی ہے ، ذیل میں ان تینوں کا طریقہ کار درج کیا جاتا ہے:

گریجویٹی فنڈ : اس فنڈ کے نام سے ہر سال، ملازم کو ملنے والی ایک تنخواہ کے بقدر رقم الگ کی جاتی ہے (یہ الگ کرنا حتمی طور پر نہیں ہوتا بلکہ حساب کتاب میں ہوتا ہے اور وہ رقم بدستور کمپنی کے کاروبار میں لگی رہتی ہے) مثلاً اگر کسی ملازم کی ماہانہ تنخواہ دس ہزارہے تو سال کے بعد مزید دس ہزار گریجویٹی فنڈ کے طور پر لینے کا مستحق ہوتا ہے ، جو کہ اس کا قانونی حق ہوتا ہے ، لیکن اس کےحاصل کرنے کا استحقاق اس کو ریٹائر منٹ کے بعد ہی ہوتا ہے چاہے وہ آج چھوڑ دے یا سالہا سال کام کرنے کے بعد ملازمت چھوڑے، لیکن جیسے ہی ملازمت چھوڑے گا کمپنی کے ذمہ ملازم کو اس کی ادائیگی ضروری ہو جائے گی۔

ور کرز ویلفیئر فنڈ: ادارے کی کل سالانہ آمدنی کا دو فیصد ہوتا ہے ، جو کہ ہر سال ملازمین کے لئے حکومت کے قائم کردہ ایک فنڈ میں جمع کروانا ہوتا ہے، اور پھر حکومت اس فنڈ کو ملازمین کی بہبود کے لئے خرچ کرتی ہے، یہ فنڈ دراصل انکم ٹیکس کے ساتھ ہی ادا کیاجاتا ہے، ہمارے ہاں گذشتہ سال کا فنڈ جمع کر وانا ابھی باقی ہے۔

ورکرزپرافٹ پارٹی سپیشن فنڈWPPF:اس فنڈ کے تحت کمپنی ہر سال اپنا 5 فیصد منافع اس فنڈ کو دینے کی پابند ہو گی۔ یہ رقم سال کے اختتام سے 9ماہ کے عرصےکے دوران وفاقی حکومت یا اس کے تحت قائم ہونے والے بورڈ کو جمع کروانے ہوں گے ، اور یہ بورڈ اس منافع کو ملازمین کے درمیان تقسیم کرے گا، اس فنڈ کی رقم بھی ہمارے یہاں حساب میں الگ تو کی گئی ہے لیکن ابھی تک جمع نہیں کروائی جاسکی لہٰذا تقریباً تین سال تک کی رقم اس مد میں جمع کروانا باقی ہے۔
جواب طلب امر یہ ہے کہ کمپنی کی زکوٰۃ بناتے وقت مذکورہ فنڈز کے نام پر الگ کی گئی رقم پر بھی زکاۃ ہو گی یا نہیں یا ز کوٰۃ کا حساب کرتے وقت ان کو واجبات میں شمار کر کے منہا کیا جائے گا۔ بینوا توجروا

جواب

کمپنی کی زکوۃ کا حساب کرتے وقت مذکورہ فنڈز میں سے کمپنی کے ذمہ جو فنڈز ملازمین کےلئے واجب الاداء ہو چکے ہوں یعنی اگر وہ مطالبہ کریں تو کمپنی کے ذمہ دہ رقوم دینا قانونا ًضروری ہو تو ایسے فنڈز کو واجبات میں شمار کر کے کمپنی منہا کر سکتی ہے، کیونکہ مذکورہ فنڈز دراصل کمپنی کے ذمہ دین ہے، لہٰذاز کوٰۃ کا سال پورا ہونے پر ان کے علاوہ کمپنی میں جو قابلِ زکوٰۃاموال موجود ہوں توان پر زکوۃ واجب ہو گی۔

الدر المختار (2 / 260)
فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد ( سواء كان لله كزكاة و خراج أو للعبد ولوكفالة أو مؤجلا ولو صداق زوجته المؤجل للفراق

بدائع الصنائع (2 / 6)
ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا وقال بعض مشايخنا إن المؤجل لا يمنع لأنه غیر مطالب به عادة فأما المعجل فيطالب به عادة فيمنع وقال بعضهم إن كان الزوج على عزم من قضائه يمنع وإن لم يكن على عزم القضاء لا يمنع لأنه لا يعده دينا وإنمايؤاخذ
المرء بما عنده في الأحكام

الفتاوى الهندية (1 / 172)
ومنها الفراغ عن الدين قال أصحابنا رحمهم الله تعالى كل دين له مطالب من جهةالعباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض ولمن البيع وضمان المخلفات وأرش الجراحة وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب يخلع أو صلح عن دم عمد وهو حال أو مؤجل و حال أو مؤجل۔۔۔۔و الله سبحانه وتعالى اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1589/79 المصباح : MDX:010
45 0