درج ذیل مسئلہ میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
ہمارا ایک تجارتی ادارہ ہے، جس میں حکومتی ٹیکسوں کی مد میں آمدن پر مختلف قسم کے ٹیکس دینا ہوتے ہیں، جن میں سے ایک انکم ٹیکس ہے،عموماً ہوتا یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے انکم ٹیکس ایڈوانس کاٹ لیا جاتا ہے ، جو کہ عمو ماً واجب الاداء انکم ٹیکس سے زیادہ ہوتا ہے جس کو بعدمیں ایڈ جسٹ کروایا جاتا ہے، اس طرح ہر سال اصل واجب الادا ءٹیکس سے زیادہ گورنمنٹ وصول کر لیتی ہے ، اور باقی کو واجب الوصول(Receivable)کہا جاتا ہے، جس کو تجارتی ادارہ جب چاہے طے شدہ مراحل اور پروسس کے بعد وصول کر سکتا ہے۔اب صور تحال یہ ہے کہ یہ زائد وصول کیا گیا انکم ٹیکس ایف بی آر سے وصول کرنا خاصا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ، جس میں طویل مراحل کےساتھ ، درمیانی واسطوں اور متعلقہ محکموں کو رشوت بھی دینا پڑتی ہے، اور اگر نہ دی جائے تو کام مزید تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے ، ایسی صور ت ِحال کی وجہ سے عموماً کمپنیاں اپنا زائد جمع شدہ ٹیکس ہر سال وصول نہیں کرتیں، بلکہ وہ محکمے کے پاس جمع ہو تا رہتا ہے یہاں تک کہ کئی سالوں بعدکمپنی ایک معتد بہ مقدار جمع ہونے پر یا حسبِ ضرورت اس کو وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس تمام صور تحال کے بعد دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہمیں اپنی کمپنی کی زکوٰۃ بنانے میں ایسے واجب الوصول ٹیکس کو بھی شمار کرنا ہو گا یانہیں، یا اس کی زکوٰۃ وصول ہونے کے بعد آئندہ سالوں میں ادا کی جائے ، کیا وصول ہونے کے بعد گذشتہ سالوں کی زکوۃدینا لازم ہوگا یا نہیں ۔اب تک گذشتہ سالوں میں جس انکم ٹیکس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی کیا اس کی زکوٰۃ دینا لازم ہے؟ برائے مہربانی مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دے کر ممنون فرمائیں
صورت مسئولہ میں مذکورہ واجب الوصول ٹیکس کی رقم بھی قابلِ زکوٰۃ اَموال میں شمار کی جائے گی۔ البتہ اس کی زکوٰة ادا کرنا فی الحال واجب نہیں، بلکہ جب یہ رقم یکمشت وصول ہو جائے یا تھوڑی تھوڑی وصول ہونے کی صورت میں مقدار نصاب کا پانچواں حصہ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا بیسں فیصد جب وصول ہو جائے اس وقت ادائیگی واجب ہو گی، لیکن اگر مذ کو رہ رقم وصول ہونے سے پہلے بھی اپنے اموال زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اس رقم کی بھی زکوٰۃ ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، بلکہ اس میں سہولت ہے، ورنہ اگر یہ رقم دوسرے سال کے گزرنے کے بعد یا مزیدتاخیر سے وصول ہوئی تو اس وقت پچھلے تمام سالوں کا حساب کر کےزکوۃ ادا کرنی پڑے گی۔
الدر المختار - (2 / 305)
( و ) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوي ومتوسط وضعيف ف (تجب ) زكاتها إذاتم نصابا وحال الحول لكن لا فورا بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كفرض ( وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.