Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ایجنٹ کا رشوت کے ذریعے کلائنٹ کا کام کرواکے اجرت لینا


سوال

ہمارا ایک صنعتی ادارہ ہے جس میں ہم پروڈکٹ تیار کر کے ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ہم اپنے مال کی تیاری کے لئے بعض اشیاء (Accessories) مثلا بٹن و غیره بیرون ملک سے امپورٹ کرتے ہیں جو ہم اپنے پروڈکٹ میں لگا کر دوبارہ ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔ حکومت کا ضابطہ یہ ہےکہ جس امپورٹ شدہ مال کو دوبارہ ایکسپورٹ کرنا ہو تو قانونا ًاس پر ڈیوٹی نہیں لگائی جاتی البتہ ایسی صورت میں اس بات کی یقین دہانی کےلئے کہ یہ مال بنا کر یقینی طور پر بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جائے گا، کسٹم والے ہم سے ایک خالی چیک بطور ضمانت رکھواتے ہیں تا کہ اگر وہ مال دوبارہ ایکسپورٹ نہ کیا گیا تو متعلقہ محکمہ اس چیک پر ڈیوٹی کی رقم لکھ کر بینک سے کیش وصول کرلے۔ اور اگر ایکسپورٹ کر دیا گیا تو وہ چیک ہمیں واپس کر دیا جائے گا، جب ہم وہ امپورٹ شدہ مال ایکسپورٹ کر دیتے ہیں تو قانونی ضابطہ کے مطابق اپنے چیک کو واپس لینے کے حقدار بن جاتے ہیں۔
لیکن اس وقت مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جب ہم مال ایکسپورٹ کرنے کے بعد متعلقہ محکمہ سے اپنے چیک کی واپسی کا تقاضہ کرتے ہیں تو وہ بغیررشوت لئے ہمارا چیک واپس نہیں کرتے اور ہم سے رشوت کا تقاضہ کرتے ہیں۔ چیک ہم ان کے پاس نہیں چھوڑ سکتے ، اور اگر ہم چیک لینے کے بدلے انہیں رشوت نہ دیں تو ایسی صورت میں وہ اس چیک پر ڈیوٹی یا جرمانہ چارج کریں گے جو پچاس ساٹھ ہزار روپے تک ہو سکتا ہے۔ اس مجبوری کی وجہ سے ہم انہیں رشوت دے کر چیک وصول کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم ایک ایجنٹ کے ذریعے سے اپنا چیک واپس کرواتے ہیں جو اس کام کے لئے ہم سے تین ہزار روپے لیتاہے۔ یہ ایجنٹ بھی وہاں رشوت دے کر کام کرواتا ہے، ایک ہزار روپے خود رکھ لیتا ہے اور دو ہزار انہیں دے کر چیک وصول کر لیتا ہے۔ اب تک تو ہم نےیہی ایجنٹ والا طریقہ اختیار کیا ہوا تھا، لیکن اب ہمارے اپنے آفس کا ایک ملازم یہ کہہ رہا ہے کہ متعلقہ محکمے سے چیک کی واپسی کا کام اس کے حوالے کر دیا جائے اور وہی رقم جو ہم کسی ایجنٹ کو دے رہے ہیں وہ اسے دے دیا کریں۔ اس ملازم کا کہنا یہ ہے کہ ایجنٹ چیک کی وصولی کے لئے جو تین ہزار روپے لیتا ہےاس میں سے دو ہزار روپے متعلقہ محکمہ کو بطور رشوت دیتا ہے اور ایک ہزار روپے وہ خود رکھ لیتا ہے، میں بھی یہی کام کروں گا۔ متعلقہ محکمہ میں میرےتعلق والا شخص موجود ہے جس کو وہ دوہزار رشوت دے کر چیک واپس کروا سکتا ہوں یوں ایک ہزار جو ایجنٹ کماتا ہے وہ بچت مجھے ہو گی۔
اس صور تحال کے پیش ِنظر دریافت طلب امر یہ ہے کہ :
• کیا ہم ایجنٹ کے بجائے اپنے ملازم کو پیسے دے کر اس کے ذریعے چیک وصول کر سکتے ؟ جبکہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ آگے رشوت دے کر یہ کام کروائےگا۔
• کیا اس معاملہ میں ہمارا ملازم جو اجرت یا نفع کمائے گاوہ اس کے لئے شرعا جائز ہو گا؟
براہ کرم شرعی حکم بیان فرما کر ممنون فرمائیں۔

جواب

رشوت کا لینا دینا اور اس میں کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرنا ، نا جائز اور گناہ ہے ،حدیث شریف میں ہے کہ رشوت لینے والے، دینے والے اور درمیانی خدمات فراہم کرنے والے ان سب پر لعنت آئی ہے، البتہ اگر کسی شخص کا حق بغیر رشوت دئیے حاصل نہ ہوتا ہو تو اپنے حق کے حصول کے لئے صرف مجبوری میں رشوت دینے کی گنجائش ہے،لیکن رشوت لینے والے کے لئے لینا بہر حال حرام ہے۔ اور وہ لعنت کا مستحق ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اپنا چیک واپس لینے کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے۔ البتہ درمیان کا شخص جو کمیشن لےکر رشوت آگے دینے کا کام کرتا ہے اس کو کوئی مجبوری نہیں، اس لئے اس کے لئے کمیشن لینا جائز نہیں۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي في التلخيص (4/115)
عن ثوبان رضى الله عنه : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : لعن الله الراشى و المرتشي و الرائش الذي يمشي بينهما
مشكل الآثار للطحاوي( 360 /12)
عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ، عن أبيه ، عن النبي عليه السلام قال : لعن الأكل، والمطعم ، سواء في الرشوةولم يدخل في ذلك عندنا والله أعلم من منع حقا فرشا ليصل إلى حقه ، فذلك غير داخل في الذم ؛ لأنه طلب الوصول إلى حقه ، وأخذ الرشوة منه التي لولا أخذه إياها لما وصل إلى حقه لمنعه إياه داخل في اللعن المذكور في هذه الأحاديث ، ومثل ذلك ما قد روى عن جابر بن زيد في هذا المعنى كما حدثنا أحمد بن أبي عمران ، حدثنا إسحاق بن أبي إسرائيل، أو إسحاق بن إسماعيل أبو جعفر يشك حدثنا سفيان ، عن عمروبن دينار ، عن جابر بن زيد قال : ما وجدنا في أيام زياد أو ابن زياد شيئا هو أنفع من الرشى ، أي : أنهم كانوايفعلون ذلك استدفاعا للشر عنهم ومما قد روى في هذا الباب أيضا من القصد بالمعنى للراشي والمرتشي : أن ذلك كان فيما هو حرام على الراشي والمرتشى جميعا
حدثنا سهل بن بكار قالا : حدثنا أبو عوانة ، عن عمر بن أبي سلمة ، عن أبيه ، عن أبي هريرة قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي في الحكم والله الموفق.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2121/94 المصباح : FS:002
37 0