Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


سپلائر سے ادائیگی کے معاہدے میں تاخیر کا شرعی حکم


سوال

درج ذیل مسئلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے:

ہمارا ایک مینو فیکچر رادارہ ہے، جس میں مختلف چیزوں کی تیاری کے لئے خام مال درکار ہوتا ہے ، یہ خام مال ہم ملک اور بیرون ملک مختلف سپلائرز سے خریدتے ہیں، سپلائرز سے خریداری کا جو معاہدہ ہوتا ہے اس کے متعلق بعض اُمور میں آپ سےشرعی رہنمائی درکار ہے۔ایسے سپلائر جن سے خریداری کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے ان سے جب مال خریدا جاتا ہے تو ان کے ساتھ جو
معاہدہ (ایگر یمنٹ) کیا جاتا ہے اس میں انہیں 60 دن کی مدت دی جاتی ہے کہ 60 دن یعنی دو ماہ میں پیسے ادا کر دیئے جائیں گے۔ جس کے الفا ظ کچھ یوں ہوتے ہیں"Payment terms: after 60 days:

تاہم 60 دن میں پیسوں کی ادائیگی عموما ًممکن نہیں ہوتی اور اس بات کا خریدار کو بھی اور سپلائر کو بھی اندازہ ہوتا ہے اس لئے یہ بات فریقین کے مابین تحریری شکل کے بغیر تقریبا ًتقریبا حتمی طور پر سمجھی ہوئی ( understood ) ہوتی ہے کہ ادائیگی 90 دن میں ہی ممکن ہو گی اور اب یہ بات اس قسم کی بڑی خریداریوں میں ہمارے اور سپلائر کے مابین تقریباً معروف ہو گئی ہے اس لئے معاہدہ کے وقت اگر چہ نہ اس شرط کو لکھا جاتا ہے اور نہ ہی دہرایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود فریقین کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ 60دن کا مطلب ہے 90 دن میں ادا ئیگی۔ اور فروخت کنندہ اس بات کو سمجھتے ہوئے معاملہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس لئے 90 دن تک یعنی ایک ماہ کی تاخیر کی حد تک تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لئے سپلائر پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے، تاہم کبھی کبھار 90 دن میں بھی ادائیگی ممکن نہیں ہو پاتی اور اس سے بھی تاخیر ہو جاتی ہے ایسی صورت میں سپلائر کو وقت پر رقم نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور وقت پر رقم نہ ملنے کا نقصان بھی ہوتا ہے۔

1. مذکورہ بالا صور تحال کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ 60 دن کا ایگریمنٹ کر کے 90 دن تک تاخیر کا کیا حکم ہے جبکہ فریق ِ ثانی ( بزبانِ حال راضی بھی ہو ، اسی طرح 90 دن سے زیادہ تاخیر کا کیا حکم ہے جبکہ اس پر سپلائر بسا اوقات دلی طور پر راضی بھی نہیں ہوتا۔

2. معاہدہ نامہ میں میں لکھے گئے الفاظ " after 60 days “ یعنی ” ساٹھ دنوں کے بعد “ کا شرعاًکیا حکم ہے ؟ معاہدہ کرتے وقت مدت کی تعین کیلئے ایسے الفاظ لکھنا کیسا ہے ؟؟ واضح رہے کہ بیچنے والا 60 دن سے پہلے تو بالکل مطالبہ نہیں کرسکتا مگر ساٹھ دن گزرنے کے بعد اگر ضرورت ہو تو کسی بھی وقت پیسوں کا مطالبہ کر سکتا ہے اور خریدار کمپنی اگر چہ اس شخص کی طرف سے اس مطالبے کو کاروباری لحاظ سے اچھا نہیں سمجھتی تاہم اس کے ساتھ ساتھ خود کو ادائیگی کا پابند بھی سمجھتی ہے اور اگر رقم موجود ہو تو فوری ادائیگی کر دی جاتی ہے اور اگر موجود نہ ہو تو اس سے مزید وقت لیا جاتا ہے۔

3. اور اگر فروخت کنندہ مطالبہ نہ کرے تو ایسی صورت میں اگر وسعت ہونے کے باوجود 60 دن گزرنے پر ادائیگی نہ کی جائے بلکہ 90 دن کا انتظار کیا جائے تو اس کا شرعاً کیا حکم ہوگا؟ اگر معاہدہ کرتے وقت "After 60 days “کے بجائے ” in 60 days یعنی ساٹھ دنوں کے اندر اندر “ یادنوں سے پہلے Before 60 days“ یعنی ” ساٹھ دنوں سے پہلے پہلے “ لکھا جائے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہو گا؟ اور ایسی صورت میں فروخت کنندہ کتنے دنوں میں رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ براہ کرم جواب دیکر ممنون فرمائیں۔

جواب

(1)۔۔۔ جب معاہدہ نامہ میں ساٹھ دن کی صراحت کر دی گئی ہے تو اس صراحت کے مقابلے میں نوےدن کے عرف کا اعتبار نہیں ہو گا لأن الصراحة فوق الدلالة لہذا اگر معاہدہ نامہ میں ساٹھ دن کی مدّت طے ہوئی ہو توصاحبِ حق ساٹھ دن کے بعد جب چاہے مطالبہ کر سکتا ہے۔(1)
(2)۔۔۔ اس جملے کا مطلب عرف میں یہی ہوتا ہے کہ قیمت کی ادائیگی کیلئے ساٹھ دن کی مدت مہلت دی گئی ہے۔ اس جملے کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ادائیگی کی مدت طے کرنا درست ہے۔ آپ نے مارکیٹ کا جو عرف ذکر کیا ہے وہ شرعی لحاظ سے درست ہے۔

(3)۔۔۔ طے شدہ مدت (ساٹھ دن) کے گزرنے کے بعد صاحب حق کے مطالبے کا انتظار کرنا اور ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں، کیونکہ خریدار پر یہ قیمت دین (قرض) ہوتی ہے جس کی جلد از جلد ادائیگی کرنی چاہئے اور وسعت کے باوجود اس میں بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں، بالخصوص جبکہ بعض دفعہ صاحب حق ضرورت کے باوجود محض شر ماشر می میں مطالبہ نہیں کر پاتا۔ البتہ اگر صاحب حق کے مطالبہ کرے تو پھر ادا ئیگی لازم ہے اور بلاوجہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔(3)

(4)۔۔۔ عرفاً اگر ان دونوں جملوں کا مطلب بھی سوال نمبر (2) میں ذکر کردہ جملے والا ہو تو ان تمام جملوں کو حکم ایک ہی ہو گا۔ البتہ اس میں ساٹھویں دن بھی مطالبہ کر سکتا ہے۔ گویا مہلت 59 دن کی ہوگی۔

(1)درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (۱ / ۳۱)

المادة (١٣) لا عبرة للدلالة في مقابلة التصريح .... وكما أن الصراحة تكون راجحة على الدلالة كما اتضح تكون راجحة على العرف والعادة أيضا؛ لأن العرف والعادة من قبيل الدلالة. مثال ذلك: إن الليرة المعروفة في فلسطين الآن هي الجنيه المصري، فلو جرى عقد البيع بين البائع والمشتري على ليرات فرنساوية مثال فالبيع ينعقد على ليرات فرنساوية، ولا تحمل الليرة التي جرى الاتفاق عليها على الليرة المصرية، وأما إذا عقد البيع على ليرات بلا تعيين نوعها، فينصرف إلى المتعارف، وهو الليرة السرية

(3)فتح الباري لابن حجر(1/189)

قوله مطل الغنى المظل معروف وهو ترك إعطاء ما حل أجله مع طلبه.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (٥ / ١٩٥٦)

قال: مطل الغني) : أي: تأخيره أداء الدين من وقت إلى وقت (ظلم) : فإن المطل منع أداء ما استحق أداؤه وهو حرام من المتمكن ولو كان غنيا ولكنـــه لـيـسمتمكنا جاز له التأخير إلى الإمكان ذكره النووي.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1629/46 المصباح : SF:001
43 0