Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


سابقہ واسطے کو نظرانداز کرکے نئے فریق سے براہِ راست معاملہ کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا دوست زید لوگوں کو رینٹ پر گاڑیاں دیتا ہے، میں نے بھی اس کو ایک گاڑی کچھ سال پہلے متعین کرایہ مثلاً 15 سو فی دن کے حساب سے دی جو اس نے میری اجازت سے آگے 18 سو کے حساب سےدیدی ( در میان میں 300 روپے زید کا کمیشن تھا)، ایک عرصے تک اس طرح معاملہ چلتا رہا، بعد میں میں نے یہ گاڑی بیچ دی۔
کچھ عرصے بعد میں نے زید کے مشورے سے ایک اور گاڑی خریدی، اس بار زید نے مجھے ڈائر یکٹ ایک آدمی عمروسے ملوایاجس کو زید اپنی گاڑیاں بھی کرائے پر دیتا ہے، عمرونے مجھ سے یہ گاڑی کرایہ پر لے لی ،عمر ومختلف لوگوں سے گاڑیاں کرائے پر لیتا ہےاور پھر آگے زیادہ کرائے پر چلواتا ہے، اس لئے اس کے پاس مختلف لوگوں کی گاڑیاں موجود ہیں،یہ معاملہ زید کی اجازت سے میرااور عمرو کا ڈائریکٹ تھا اور اس میں عمرو کا کوئی کمیشن نہیں تھا۔تاہم یہ گاڑی ٹھیک نہیں تھی، اس لئے میں نے یہ گاڑی بیچ دی۔
اس کے بعد میں نے ابھی ایک اور گاڑی خرید ی ہے، اس بار میں نے براہِ راست عمرو سے خود ہی رابطہ کر لیا اور اس کو اپنی گاڑی کرایہ پر دیدی البتہ زید کو میں نے اطلاع ضرور دی کہ میں نے گاڑی عمرو کو دی ہے، زید نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ یہ گاڑی مجھے دے دولیکن میں نے منع کر دیا تو زید خاموش ہو گیا ۔
اس کے کچھ عرصے بعد میری ایک دوسرے موضوع پر زید سے تلخی ہوئی، تو زید نے کہا کہ آپ نے میرے کاروبار میں مداخلت کیوں کی اور میرے بندے کو بر اہِ ر است گاڑی کیوں دی ہے، لہذا آپ اس سے گاڑی واپس لو، اور اگر دینی ہے تو میرے توسط سے دو تاکہ میں آپ سے اس کا کمیشن بھی رکھ سکوں، اور اگر مجھے گاڑی نہیں دینی تو میرے بندے کو بھی نہیں دو کیونکہ اس کا تعلق آپ سے میری وجہ سے بنا ہے۔
مذکورہ صورتحال میں دریافت طلب امور یہ ہیں :
1. کیا میرے براہ راست عمروکو گاڑی دینے پر زید کا ناراض ہونا درست ہے ؟
2. کیا زید کے اعتراض اور مطالبے کی وجہ سے مجھ پر عمرو سے گاڑی واپس لینا ضروری ہے، جبکہ عمرو اور بھی بیسیوں لوگوں سےاس طرح کے معاملات کرتا ہے اور اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
3. کیا زید کا اپنے واسطے سے گاڑی دینے کا اور کمیشن کا مطالبہ کرنا درست ہے ؟
واضح رہے کہ اس ساری صورتحال میں میرے دوست زید کا کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ ہی میری وجہ سے عمرونے زید کو کوئی نقصان پہنچایا ہے۔

جواب

(1) ۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ وجہ کی بنیاد پر زید کا عمر وسے ناراض ہونا جائز نہیں، اور اگر یہ ناراضگی تین دن سے زیادہ ہو تو یہ قطع تعلق کے زمرے میں آتا ہے جس کی وجہ سے زید گناہ گار ہو گا جس پر تو بہ واستغفار لازم ہے۔
(2) ۔۔۔مذکورہ صورت میں آپ پر زید کے مطالبے اور اعتراض کی وجہ سے عمر و سے گاڑی واپس لینا لازم نہیں، بلکہ عمر و کیساتھ کرایہ داری کا کوئی معاملہ اگر کیا ہوا ہے تو اس کی پاسداری لازم ہے۔
(3) ۔۔۔ مسئولہ صورت میں زید کا اپنے واسطے سے عمرو کو گاڑی دینے اور کمیشن کا مطالبے کرنے کی پابندی کرنا آپ پرشرعا لازم نہیں ہے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي» (1964):
للإنسان أن يتصرف في ملكه ما شاء من التصرفات ما لم يضر بغيره ضرراظاهرا»
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام» (3/ 328):
«أن لكل أن يتصرف في ملكه باختياره وأنه لا يجبر أحد من قبل على التصرف في ملكه».


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2638/83 المصباح : MCS:002
25 0