ایک پروڈکٹ حلیم مصالحہ“ کے نام سے بھی ہے۔ آج کل بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ حلیم اللہ تعالی کا نام ہے اس لئے یہ نام استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
اسی طرح ہمارے کنزیومرز میں سے بھی کسی کی طرف سے ہمارے پاس شکایت آئی ہے کہ چونکہ حلیم اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس لئے پیکٹ وغیرہ پر اسے پرنٹ کرنا اس کی بے ادبی ہے کیونکہ پیکٹ کچرےوغیرہ پھینکے جاتے ہیں، لہذا حلیم کا نام تبدیل کر کے ”دلیم “ رکھنا چاہئے۔
شرعی اعتبار سے کھانے کی مذکورہ ڈش "حلیم" کے لئے حلیم کا لفظ استعمال کرنا درست ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ناموں کی دو قسمیں ہیں:
1. ذاتی
2. صفاتی
(1)۔۔۔وہ اسماءِ حسنیٰ جو باری تعالیٰ کے اسم ذات ہوں یا صرف باری تعالیٰ کے صفات مخصوصہ کے معنی میں ہی استعمال ہوتے ہوں، غیر اللہ کے لئے ان کا استعمال یا تو بالکل جائز نہیں (جیسے لفظ " اللہ " کا استعمال کسی اور کیلئے کیاجائے) یا پھر لفظ ”عبد“ کے اضافے کے بغیر جائز نہیں (جیسے کسی کا نام صرف ، الرحمن یارحمن رکھنا جائز نہیں اورعبد الرحمن رکھنا جائز ہے)۔ اس قسم کے اسماء درج ذیل ہیں:
اللہ ،الرحمن، القدوس، الجبار، المتكبر ، الخالق، البارى، الرازق، الغفار، القہار ، التواب، الوہاب،الخلاق، الفتاح، القيوم، الرب، المحيط، الملك الغفور، الاحد، الصمد، القادر ، المحي، الحق
(2)۔۔۔وہ اسماء حسنیٰ جو باری تعالیٰ کی صفت خاصہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں، اور دوسرےمعنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا جا سکتا ہو ، ان میں تفصیل یہ ہے کہ اگر قرآن وحدیث ، تعامل امت،یا عرف عام میں ان اسماء سے غیر اللہ کا نام رکھنا ثابت ہے تو ایسا نام رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مثلاً عزیز، علی،کریم، رحیم ، عظیم، رشید ، کبیر ، بدیع، کفیل، ہادی، واسع، حکیم ، وغیرہ۔(بحوالہ: فتاوی دار العلوم کراچی بتغیر:(۵۲/۱۰۳۴)
مثال کے طور پر اللہ تعالی کے انہی صفاتی اسماء میں سے ایک لفظ ”وکیل “ بھی ہے اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتےہیں:
حَسبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (سورة آل عمران)
ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے
اب ہم یہ لفظ عام طور پر اس شخص کیلئے استعمال کرتے ہیں جو عدالت میں کسی فریق کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے (فیروز اللغات : ص ۱۴۱۴) ۔ اور ساتھ ہی وکیلوں کو عموماً برا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ وکیل بہت کرپٹ ہے، یہ رشوت خور ہے یا وکیل بہت لالچی ہوتے ہیں وغیرہ، تو جیسے اس سے خاص شخص یا کسی خاص فن سے منسلک افراد مراد ہوتے ہیں نہ کہ ذاتِ باری تعالیٰ، اسی طرح لفظ حلیم میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ حلیم کو آگ پر چڑھا دیا“ یا ” حلیم جل گیا وغیرہ ، تو اس سے کھانے کی ایک مخصوص قسم مراد ہوتی ہے نہ کہ ذات باری تعالیٰ۔
مزید وضاحت کیلئے ذیل میں چند ایسے اسماء لکھے جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام بھی ہیں اور دیگر معنوں میں بھی یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں اور ان سب کو علماء نے جائز رکھا ہے، کیونکہ ایک تو یہ ذاتِ باری تعالیٰ کے ذاتی نام نہیں اور دوسرے یہ کہ غیر اللہ پر ان کا اطلاق تعامل سے نہ صرف رائج ہے بلکہ عرف عام میں معیوب بھی نہیں جانا جاتا۔ جیسے:
• حکیم : یہ لفظ ہر بل طب کے ماہر طبیبوں کے لئے عام استعمال ہوتا ہے۔
• نافع: یہ دوا بہت نافع ہے۔
• مصور : تصویر بنانے والے شخص کو کہا جاتا ہے۔
• باقی : کہا جاتا ہے ”کچھ بھی باقی نہیں رہا
• قابض: کہا جاتا ہے ، فلاں شخص میرے مال پر قابض ہو گیا ہے۔
• اسی طرح درج ذیل اسماء بھی عام استعمال میں مروج ہیں:
• جلیل، شہید، عظیم، مقتدر، رقیب، ظاہر ، اول۔
حالانکہ یہ تمام اسماء بھی اسماء حسنیٰ میں شامل ہیں اس کے باوجود ان کا استعمال دیگر معانی کیلئے کیا جارہا ہے۔مزید یہ کہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں مذکورہ نام ” حلیم “ کی وضع اسی مخصوص ڈش کے لئےمستقل طور پر ہوئی ہے اسلئے اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے ، اسم الہی کی بے ادبی اس وقت ہو گی جب کوئی شخص قصداً ، جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی نام کو اس کے نام ہونے کی حیثیت سے کسی بے ادبی کے مقام پر استعمال کرے، بصورت دیگر بے ادبی کا کوئی معنی نہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ مذکورہ نام درست ہے ، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، اوراگر لوگ اس نام کے کھانے سے متعلق کوئی جملہ بولتے ہیں، تو اس سے مقصود اللہ تعالی کی مقدس ذات نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسی کھانے کو مراد لیتے ہیں، اس لئے ایسا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
اور جہاں تک اس نام والے پیکٹ کو نیچے پھینکنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں شرعی حکم یہ ہے کہ حضراتِ فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق اگر ایسے صفاتی ناموں کو کسی اور چیز کیلئے وضع کر لیا جائے ( یعنی کسی دوسری چیزکے نام کے طور پر استعمال ہونے لگیں ) تو پھر ایسی صورت میں ان کے احکام مختلف ہونگے ، کیونکہ شریعت میں وضع کی تبدیلی سے احکام میں تبدیلی آجاتی ہے۔
مندرجہ بالا تفصیلات کو ملحوظ رکھتے ہوئے شان فوڈز کی طرف سے تیار کردہ حلیم “ کے پیکٹ پر لفظ حلیم سےاللہ تعالیٰ کی ذات پر صفات مراد نہیں، بلکہ کھانے کی وہ ڈش مراد ہے جس کی طرف اس نام کا انتساب کیا گیاہے، لہذا اس کا ایسا ادب و احترام لازم نہ ہو گا جیسا اللہ تعالیٰ کے نام کا ہوتا ہے اور بطور کھانے کی ایک ڈش کے نام کے ، جس پیکٹ پر یہ نام لکھا ہوا ہے اس پیکٹ کو کہیں پھینکنے سے گناہ بھی نہ ہو گا۔ البتہ اگر اس کے باوجود کوئی شخص اپنے طور پر اس طرح کے الفاظ کا ادب ملحوظ رکھنے کی کوشش کرے تو یہ اچھی بات ہے۔
واضح رہے کہ اگر یہ لفظ یعنی لفظ "حلیم" کسی جگہ اللہ تعالی کے نام کی حیثیت سے استعمال ہوا ہو تو ایسی صورت میں اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو جان بوجھ کر زمین پر گرانا جائز نہیں ہے۔ اور اگر کبھی زمین پر گرا ہوا نظرآئے ، اور اٹھانے میں بہت زیادہ مشقت نہ ہو ، تو اس کو اٹھا کر کسی مقدس جگہ یا مقدس اوراق کے ڈبے میں رکھ دینا چاہئے۔
۔