1. آج کل کسی بھی ادارے میں جب ملازم کی ضرورت ہوتی ہے تو اشتہار دینے کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع سے بھی مطلوبہ صفات کےحامل فرد کی تلاش کی جاتی ہے ، اب اگر مطلوبہ شخص کسی دوسرے ادارے میں پہلے ہی سے ملازم ہے تو اس سے رابطہ کر کے اس کو اپنے ہاں ملازمت کی آفر دی جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ موجودہ مستاجر سے کچھ بہتر ہوتی ہے چنانچہ اچھی آفر پر اجیر پر انے ادارے سے نئے ادارے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ایسی صورت میں نے ادارے کو اس شخص کی وہ تمام مہارتیں، قابلیت وصفات حاصل ہو جاتی ہیں جن پر سابقہ ادارے نے بڑی محنت تربیت اور پیسہ خرچ کیا ہوا ہوتا ہے۔
کسی شخص کو نشان زد کر کے ملازم رکھنے کے اس عمل کو کاروباری اصطلاح میں (head hunting) کہا جاتا ہے۔اب Head hunting میں کچھ صورتیں قابل غور ہیں:
کوئی آدمی کسی جگہ با قاعدہ ملازمت کر رہاہوتا ہے اور اسے وہاں سے اپنے ہاں لانے کیلئے زیادہ تنخواہ اور سہولیات کی پیشکش کی جاتی ہے تاکہ وہاں سے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے جیسا کہ پہلے تفصیل گزری۔کیا یہ صورت ليس منا من خبب امرأة على زوجها أو عبدا على سيدة (سنن ابي داود ) والی و عید میں داخل تو نہیں ہوتی ہے؟
2. کیا اس کی علی الاطلاق اجازت ہے؟ یا اس میں کچھ شرائط ہیں؟
3. دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی آدمی کی ایک کمپنی کے ساتھ بات چل رہی ہوتی ہے اور کسی قدر ابتدائی معاملات بھی طے ہو چکےہوتے ہیں تاہم ابھی حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہو تا کہ اس دوران دوسری کمپنی کو پتہ چل جاتا ہے تو وہ کمپنی اسے اپنی طرف لانے کی کوشش کرتی ہے باوجودیکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کے معاملات کسی اور کے ساتھ طے ہو رہے ہیں۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ: "لا يبيع بعضكم على بيع أخيه “ (صحيح البخاري) اور اسی طرح ” لا يبيع على بيع أخيه، ولايسوم على سوم أخيه، حتى يأذن له أو يترك'' تو کیا یہ صورت مندرجہ بالا ممانعت میں داخل تو نہیں؟
4. اگر بالفرض اس کی ممانعت ہے تو پھر Head Hunting کی جائز صورت کیا ہو گی ؟ جبکہ یہ معاملات کی ایک ضرورت ہے اورنہ صرف کاروباری اداروں بلکہ دینی و تعلیمی اداروں میں بھی اس کی صورتیں رائج ہیں۔
براہ کرم جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
(1)۔۔۔جو آدمی کسی کے ہاں ملازم ہو اور اس کی ملازمت کی مدت ابھی تک باقی ہو تو کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں کہ اس کو اس بات کی ترغیب دے یا پیشکش کرے کہ وہاں سے معاہدہ شکنی کر کے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے اس کے ہاں ملازمت کے لئےآ جائے۔ ہاں اگر کسی شخص کو اس ملازم کی ضرورت ہو تو وہ اس بات کی ترغیب اور پیشکش کر سکتا ہے کہ ملازم اپنی مدت ملازمت پوری کرکے یا باہمی رضامندی سے مالک سے اپنا معاہدہ ختم کر کے اس کے ہاں آجائے ، شرعاً اس میں مضائقہ نہیں بلکہ اجازت ہے؛ کیونکہ اس میں نہ تو کوئی دھوکہ ہے اور نہ ہی کسی کو کسی غیر شرعی بات یا عمل پر اکسانے کا عمل پایا جاتا ہے، اس لئے سوال میں ذکر کردہ حدیث کی وعید میں یہ صورت داخل نہیں ہے۔(1)
حبب بخاء معجمة، ثم باء موحدة مكررة أي أفسده وخدعه
(2)۔۔۔صورتِ مسئولہ کا جواز علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ انہی شرائط سے مشروط ہے جو جواب نمبر (۱) میں مذکور ہیں۔
(3)۔۔۔اگر کسی آدمی کی کسی کمپنی ، ادارے یا کسی فرد کے ساتھ ملازمت کی بات چیت چل رہی ہو یا کسی قدر ابتدائی معاملات بھی طے ہو چکے ہوں تو اگرچہ ابھی تک ان کے مابین ملازمت کا حتمی معاہدہ نہیں ہوا پھر بھی کسی دوسرے ادارے، کمپنی یا فردکے لئے اس ملازم کو اپنے ہاں ملازمت کی ترغیب دینا یا پیشکش کرنا جائز نہیں، اور یہ صورت سوال میں مذکور حدیث (لايسم على سوم أخيه ) کی ممانعت میں داخل ہے۔ البتہ اگر فریقین میں بات نہ بننے کی وجہ بات چیت ختم ہو گئی ہو تو اب اس کو ملازمت کی ترغیب دینے کی اجازت ہے۔(3)
(4)۔۔۔صورت مسئولہ کی جائز صورتیں جواب نمبر (۱) اور (۳) کے ضمن میں ملاحظہ ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب
(1)في التيسير بشرح الجامع الصغير - للمناوى –( 2 / 804)
( من خبب ) بمعجمة فموحدتين تحتيتين (زوجة امرئ ) أي خدعها وأفسدها أو حسن اليها الطلاق ليتزوجها أو يزوجها لغيره او غير ذلك ( أو مملوكه وامته )أي أفسده عليه بأن لاط أو زنى به أو حسن اليه الاباق أو طلب البيع أو نحو ذلك ( فليس منا ) أي ليس من العالمين بأحكام شرعنا ( د عن أبي هريرة )
وفي شرح رياض الصالحين - (1 / 1857(
وعن أبي هريرة رضي ا الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من خبب زوجة امرئ أو مملوكه، فليس منا رواه أبو داود.
حبب بخاء معجمة، ثم باء موحدة مكررة أي أفسده وخدعه
(3)التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (13 / 25)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا يستام الرجل على سوم أخيه حتى يشتري أو يترك ولا يخطب على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك".