درج ذیل مسائل میں آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے، برائے مہربانی جلد از جلد جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ۱۹۹۴ء میں ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا، انہوں نے اپنے ورثاء میں درج ذیل افراد چھوڑے ہیں
دو بیٹے ، دو بیٹیاں، بیوہ، جبکہ ان کے والد ، والدہ اور نانی کا انتقال ان کے انتقال سے پہلے ہو چکا تھا۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد صورت حال یہ ہے:
تمام ور ثاء ( بہن بھائی جو کہ سب کے سب بالغ تھے ) نے باہمی رضامندی سے ترکہ کو تقسیم کر کے اپنا حصہ لینے کی بجائے اسی طرح مشتر کہ جائیداد کو زبانی طور پر والدہ کی ملکیت میں دے دیا ، مرحوم والد صاحب نے اپنے ترکہ میں دیگر اشیاء کے ساتھ ایک چلتی ہوئی کمپنی بھی چھوڑی تھی، اس کمپنی کو بھی باقی ترکے کی طرح، بجائے تقسیم کرنے کے ( زبانی طور پر) والدہ کی ملکیت میں دے دیا گیا اور اس کے بعد کاغذات میں ان کے نام بھی کروادیا گیا، جبکہ کمپنی کا نظام دونوں بیٹے مل کر چلاتے رہے اور اس پر ایک متعین تنخواہ وصول کرتے ہیں۔2009ء میں کمپنی کو پرائیوٹ کمپنی میں بدلا گیا تو اس کے شیئر ز بنائے گئے ، جس میں ورثاء کے شیئرز کی نسبت درج ذیل تناسب سےطے کی گئی، (کل شیئر ز 3007ہیں):
(1) والدہ: 2010 (2) بڑا بھائی (یعنی بیٹا): 409، (3) بڑی بہن (یعنی بیٹی): 169 (4) چھوٹا بھائی: 169 (5)چھوٹی بہن: 10
ابھی تک کمپنی میں کبھی بھی منافع کی مستقل تقسیم نہیں کی گئی بلکہ جو بھی منافع ہو تا رہا اس کو دوبارہ اسی میں انویسٹ کر دیا گیا، البتہ مختلف مواقع پر درج ذیل عنوانات سے کمپنی کی آمدن سے رقوم لی گئیں:
گھر کے مشتر کہ اخراجات:
تفصیل : چونکہ ایک بہن کی شادی والد صاحب کے انتقال سے پہلے ہی ہو چکی تھی اس لئے ان کا خرچ تو الگ رہا، جبکہ باقی گھر کا خرچ اسی کمپنی کی آمدن سے 2007ء تک والدہ کے ساتھ مشترکہ طور پر ہو تا رہا، 2003ء میں دوسری بہن کی شادی ہو گئی اور ان کا خرچ الگ ہو گیا، اس کے بعد 2007ءمیں ایک بھائی بھی خرچ کے اعتبار سے الگ ہو گئے، فی الحال ایک بھائی اور والدہ مشترک ہیں، جبکہ دو بھائی جو کہ کاروبار کی نگرانی کر رہے ہیں اس نگرانی کی وجہ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں، دیگر تمام ورثاء کو خرچہ کے عنوان سے باہمی رضامندی سے ہر ماہ درج ذیل تفصیل کے مطابق خرچ دیا جاتا ہے:
والدہ: شروع سے ہی خرچ دیا جا رہا ہے جو کہ گھر کے خرچ کے عنوان سے مختلف ومتعین مقدار میں رہا۔
بڑا بھائی : شروع ہی سے کمپنی میں منیجنگ ڈائر یکٹر ہونے کی وجہ سے تنخواہ لیتے ہیں جبکہ 2007ء تک والدہ کے ساتھ تنخواہ کے علاوہ مشتر کہ خرچ میں بھی شریک رہے۔
چھوٹا بھائی: شروع سے کمپنی میں ڈائر یکٹر کے عہدہ پر ہونے کی تنخواہ لیتے ہیں، جبکہ ( تنخواہ کے علاوہ) والدہ کے ساتھ مشتر کہ خرچ میں بھی شریک ہیں۔
بڑی بہن : ان کو 2007ء تاریخ سے خرچ کے نام پر متعین رقم ماہانہ دی جاتی ہے۔
چھوٹی بہن : ان کا خرچہ والدہ کے ساتھ رہا پھر ان کے شادی کے اخراجات کمپنی کی آمدنی سے کئے گئے، اور اس کے بعد2007ء تاریخ سے خرچ کے نام پر متعین رقم ماہانہ دی جاتی ہے ، اور شادی سے پہلے یہ والدہ کے ساتھ مشترک خرچ میں شریک رہیں۔
• چھوٹی بہن کی شادی کے اخراجات
• بڑے بھائی کی شادی کے اخراجات،
• دوشادیاں پہلی: 1996ء دوسری: 2005ء
• باہمی رضامندی سے خالہ کے علاج پر خرچہ تقریباً چھ سے سات لاکھ
• گھر کے بجلی سوئی گیس وغیرہ کا خرچ جو کہ مشتر کہ اخراجات کے علاوہ ہے۔
• جامد (fixed assets) باقی رہنے والی مختلف اشیاء گھر کے استعمال کے لئے خریدی گئیں مثلاً فریج، اے سی وغیرہ
• حج و عمرہ کے لئے مختلف افراد نے باہمی رضامندی سے مشترکہ ترکہ سے رقم لی چنانچہ :
1. بڑے بھائی: ایک عمرہ ،
2. چھوٹے بھائی : دوحج، ایک عمرہ ،
3. والدہ: ایک حج ، ایک عمرہ ،
4. چھوٹی بہن: ایک عمرہ ،
5. خالہ : ایک حج
واضح رہے کہ جن مواقع پر ”باہمی رضامندی“ لکھا گیا ہے ان سے مراد تحریری رضامندی نہیں ہے بلکہ بعض مواقع پر زبانی رضامندی لی گئی اور بعض میں ان کے خاموش رہنے کو ہی رضامندی سمجھا گیا۔مذکورہ تمام تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:
1. جو جائیداد تقسیم کئے بغیر والدہ کی ملکیت میں دے دی گئی کیا اس حوالگی کی وجہ سے والدہ اس کی مالک ہیں یا وہ بدستور تمام ورثاءکی ملکیت ہے؟
2. اگر مذکورہ جائیداد بشمول کمپنی بدستور تمام ورثاء کی ملکیت ہے تو اس کی تقسیم کس تناسب سے ہو گی ؟ اور اگر کمپنی کو اسی حالت میں باقی رکھا جائے تو شیئرز کی ملکیت اور نفع کی تقسیم کا کیا تناسب ہو گا ؟
3. کمپنی کی آمدن سے جو رقم مشترکہ خرچہ کے لی جاتی رہی وہ کس کے حساب میں ہو گی ؟ اور کیا دوسرے ورثاء کو اس رقم کےاستعمال کرنے والے ورثاء سے مطالبے کا حق حاصل ہو گا؟ اسی طرح مشترک آمدن سے لی گئی جامد اشیاء جو ابھی تک موجود ہیں، کا کیا حکم ہے؟
4. کیا دونوں بھائیوں کا کاروبار چلانے کی وجہ سے تنخواہ لینا درست ہے ؟ اور کیا اب تک جو تنخواہ لی جاتی رہی اس کو تقسیم ترکہ کےوقت منہا کیا جائے گا ؟
5. مشتر کہ ترکے سے جن کی شادیاں کی گئیں، کیا تقسیم ترکہ کے وقت ان کو ان کے حصوں سے منہا کیا جائے گا؟
6. جن ورثاء نے کمپنی کی آمدن سے لی گئی رقوم سے حج یا عمرہ کیا، کیا تقسیم کے وقت ان رقوم کو ان کے حصوں سے منہا کیا جائےگا؟
7. خالہ کے علاج پر ہونے والے اخراجات جو باہمی رضامندی سے کئے گئے ، ان کو کس حساب میں رکھا جائے گا؟
8. مذکورہ تفصیل میں شیئر ز کی تقسیم میں مذکورہ تناسب بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے ( کمپنی کی بیلنس شیٹ کے مطابق رکھنےکے لئے) کیا گیا ہے، کیا اگر تمام ورثاء شیئر ز کو اور ان کے نفع کو شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کرتے رہیں ، جبکہ قانونی دستاویزات میں شیئر ز کی ملکیت کا تناسب وہی رہے جو مذکور ہوا تو کیا یہ درست ہے؟ یا قانونی دستاویزات میں بھی شیئرزکی تقسیم کا تناسب شرعی اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے؟
9. اگر بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کے حق میں چھوڑ کر اپنے حصہ سے دستبردار ہونے پر راضی ہوں تو کیا بھائیوں کے لئے ان کے حصہ کو اپنے پاس رکھنا درست ہے؟اور دستبرداری کا شرعی طریقہ کیا ہے؟
(1)۔۔۔صورت مسئولہ چونکہ والد صاحب کی جائیداد میں دیگر ورثا کی طرح والدہ کا بھی حصہ ہے، اس لیے دیگر ورثاءکا تمام جائیداد والدہ کو ہبہ کرنا، یہ شریک کو ہبہ ہے اور اگر کوئی چیز قابل تقسیم ہو تو تقسیم سے پہلے شریک کو ہبہ معتبر نہیں ہے ، لہذا تمام جائیداد بدستور تمام ورثا کی مشترکہ ملکیت ہے۔(1)
(2)۔۔۔ آپ کے والد مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں کمپنی سمیت جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد،مثلاً مکان و پلاٹ ، سونا، چاندی، نقدی، بینک بیلنس و مال تجارت ،کپڑے، برتن، غرض ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو ساز وسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم والد صاحب کا ترکہ ہے اس میں سب سے پہلے مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط مصارف کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات بطور احسان کسی نے ادا کر دیے ہوں تو یہ اخراجات ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے اس کے بعد دیکھیں کہ مرحوم والد صاحب کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو یابیوی کا مہر دینا باقی ہو تو وہ ادا کیا جائے، پھر دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی (3/1) مال کی حد تک اس وصیت پر عمل کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بچے اسےاڑتالیس 48/ مساوی حصے کر کے اس میں سے چھ 6 حصے مرحوم کی بیوہ کو اور چودہ / 14 چودہ / 14 حصے ہر بیٹےکو اور سات7 / سات7 / حصے مرحوم کی ہر بیٹی کو دے دیں۔ کمپنی کے شیئر ز اور نفع بھی مذکورہ تناسب سے تقسیم ہو گا۔(2)
(7-6-5-3) مشترکہ ترکہ اور کمپنی کی آمدنی سے جو اخراجات کسی بھی مقصد مثلا: شادی، حج، عمرہ وغیرہ کے لیے ، لیے گئے ہیں اگر یہ تمام عاقل بالغ ورثا کی رضامندی سے کیے گئے ، تو یہ درست ہے۔ اور اگر یہ اخراجات بعض ورثاء کی رضامندی کے بغیر کیے گئے ہیں تو ایسی صورت میں یہ اخراجات صرف انہی ورثاء کےحصوں سے منہا کیے جائیں گے جو رضامند تھے اور جو راضی نہیں تھے ان کے حصے سے منہا نہیں ہونگے۔ واضح رہے کہ صرف خاموش ہو جانار ضامندی شمار نہیں کیا جاسکتا۔
مشتر کہ استعمال کے لیے جو جامد اشیاء خریدی گئیں ہیں اور یہ اشیاء بعض وارثوں کے استعمال میں ہیں تو ان کےاخراجات ان وارثوں کے شرعی حصے سے منہا کیے جائینگے اور علیحدہ رہنے والوں کے حصے سے یہ اخراجات منہانہیں کیے جائینگے۔
(4) دونوں بھائیوں کا کمپنی کے انتظامی امور سنبھالنے کی تنخواہ لینا شرعاً درست ہے اور یہ تنخواہ اگرباہمی رضامندی سے طے کی گئی ہو یا باہمی رضامندی سے نہیں طے کی گئی ہو لیکن اجرت مثل کے برابر ہو تو یہ ان کے حصوں سے منہا نہیں کی جائے گی ، اور اگر یہ تنخواہ باہمی رضامندی سے طے نہیں کی گئی اور اجرت ِمثل سےزائد ہو تو اجرت مثل سے زائد تنخواہ ان کے حصوں سے منہا کی جائے گی۔(3)
(9) شرعاً بہنوں یا کسی دوسرے وارث کا اپنے حصے سے زبانی یا تحریری طور پر دستبر دار ہونے کا شرعاً اعتبارنہیں ہے اور اس سے اس کا حصہ ختم نہیں ہوتا نیز محض رواج یا شر ما شرمی میں بہنوں کا اپنا حصہ بھائیوں کو دیناشرعاً معتبر بھی نہیں اور نہ ہی بھائی اس کے مالک ہونگے۔
تاہم اگر واقعتاًبہنوں کو اپنے حصوں کی ضرورت نہ ہو اور وہ اپنا حصہ بھائیوں کو دینا چاہیں تو اس کے لیے مندرجہ ذیل دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کو اختیار کرناضروری ہے۔
(الف) یہ کہ بہنیں میراث میں سے اپنا کل حصہ وصول کر کے قبضے میں لے لیں اور اس کے بعدبھائیوں کو جتنا دینا چاہیں دے دیں۔
(ب) یہ کہ اپنے حصہ میراث میں سے جتنا چاہیں لے لیں اور بقیہ حصے کو اسکے بدلے معاف کر دیں۔(5)
(10) جی ہاں! خوشدلی سے ایسا کرنا جائز ہے۔(6)
(11)کاروبا میں ترقی کی وجہ سے کاروبار میں جتنا اضافہ ہوا ہے وہ بھی نمبر دو/ 2 میں ذکر کر دہ حصص کے مطابق تقسیم ہو گا۔(7)
(1)
حاشية ابن عابدين – (8 / 424)
وفيه وهبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة تجوز من شريكه ومن غيره وفيمايحتملها لم تجز لا من شريكه ولا من أجنبي
حاشية ابن عابدين –( 8 /100)
وهبة المشاع القابل للقسمة لا تتم ولو قبض بخلاف مالا يقسم كبيت وحمامصغيرين فإنها تصح فيه وتتم بالقبض
(2)
القرآن الكريم[النساء/11،12]
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثَّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ وَمَا أَوْ دَيْنٍ
(3)
(قَوْلُهُ كَمَا زَعَمَهُ مَشَايِخُ بَلْخِ ( قَالَ فِي التَّبِينِ : وَمَشَايِحُ بَلْخِ وَالنَّسَفِيُّ يُجيزُونَ حَمْلَ الطَّعَامِ بِبَعْضِ الْمَحْمُولِ وَنَسْجَ النَّوْبِ بِبَعْضِ الْمَنْسُوجِ لِتَعَامُلِ أَهْلِ بِلَادِهِمْ بِذَلِكَ ، وَمَنْ ثُمَّ يُجَوِّزْهُ قَاسَهُ عَلَى فَفِيرِ الطَّحَانِ ، وَالْقِيَاسُ يُتْرَكُ بِالتَّعَارُفِ . وَلَئِنْ قُلْنَا : إِنَّهُ لَيْسَ بِطَرِيقِ الْقِيَاسِ بَلْ النَّصُّ يَتَنَاوَلُهُ دَلَالَةٌ فَالنَّصُّ يُخص بِالتَّعَارُفِ أَلَا تَرَى أَنَّ الاِسْتِصْنَاعَ تَرْكُ الْقِيَاسِ فِيهِ ، وَحُصَّ مِنْ الْقَوَاعِدِ
(4)
الجمع بين الصحيحين البخاري ومسلم - (1 / 220)
قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم} ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ثلاثاً …فقال ألا وقول الزور وشهادة الزور فما زال يكررها حتى قلنا ليته سكت.
(5)
حاشية ابن عابدين - (8 / 424)
وفيه وهبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة تجوز من شريكه ومن غيره وفيمايحتملها لم تجز لا من شريكه ولا من أجنبي
(6)
الدر المختار - (5 / 708)
(هبة الدين ممن عليه الدين وإبراؤه عنه يتم من غير قبول )
(7)
الفتاوى الهندية - (2 / 301)
وَشَرِكَةُ الْمِلْكِ نَوْعَانِ شَرِكَةُ حَبْرٍ وَشَرِكَةُ احْتِيَارٍ ... وَرُكُنُهَا اجْتِمَاعُ النَّصِيبَيْنِ وَحُكْمُهَا وُقُوعُ الزِّيَادَةِ عَلَى الشَّرِكَةِ بِقَدْرِ الْمِلْكِ. والله تعالى اعلم بالصواب