Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہونے کے لئے مبیع کا متعین ہونا ضروری ہے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا ادارہ گوشت ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے، جس کی خرید و فروخت کے متعلق چند مسائل میں رہنمائی مطلوب ہے ، مراحل کی تفصیل یہ ہے:
سب سے پہلے بیرون ملک سے ہمارا کسٹمر ہمیں فون یا میسج کے ذریعے یا با قاعدہ پر چیز آرڈر کے ذریعے ای میل پرآرڈر دیتا ہے کہ مجھے مثلا دس عدد بکرے، دس عدد بچھڑے وغیرہ بھیج دیں، عموماًفی کلو کے حساب سے گوشت کاریٹ ڈالر میں پہلے سے طے ہوتا ہے، البتہ کوئی تبدیلی آئی ہو یا یا کسٹمر ہو تو اسے قیمت بتادی جاتی ہے۔
تحریری آرڈر ملنے کی صورت میں اور بعض دفعہ زبانی صورت میں بھی ایک انوائس پر فارما کسٹمر کو بھیجا جاتاہے، جس میں قیمت، مقدار، ایئر لائن کا نام ، پہنچنے کا دن اور تاریخ وغیرہ لکھی ہوتی ہے ۔ عمومااس کا جواب نہیں آتا، یہ دراصل اطلاع ہوتی ہے ، تاکہ کسٹمر اپنی گاڑیوں وغیر ہ اور وصول کرنے کے انتظامات کرلے۔
اس کے بعد فورا مال لینے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے، چنانچہ ہمارا پر چیز ر اس آرڈر کو پورا کرنے کے لیے اپنےسپلائر سے رابطے شروع کر دیتا ہے، شپمنٹ کی صبح دوبارہ کسٹمر کو بتادیا جاتا ہے کہ اتنی مقدار اور اتنا وزن بھیجا جارہاہے ،اس کا جواب آنا بھی ضروری نہیں ہے۔
ائیر پورٹ کے وزن کے مطابق دوبارہ انوائس بھیج دی جاتی ہے، مال ملنے کے بعد وہ وزن کرتا ہے اور اس وزن کے مطابق فائنل انوائس دوبارہ بھیج دی جاتی ہے۔
مال کسٹمر کی ملک تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور بھیجنے کے اخراجات اور رسک بھی ہم برداشت کرتے ہیں۔عموما ہمارا اور کسٹمر کا کیا گیا وزن ایک ہی ہوتا ہے، البتہ اگر بہت کمی ہو تو کسٹمر کی بات مان لی جاتی ہے اور وہ اپنےوزن کے مطابق پیمنٹ کرتا ہے۔جواب طلب امور یہ ہیں:
1. مذکورہ مراحل میں سے کون سے مرحلے پر سمجھا جائے گا کہ بیع تام ہو گئی ؟
2. کس مرحلے کو ایجاب اور کسی کو قبول تصور کیا جائے گا ؟
3. اگر بالفرض انوائس پروفارماقبول کے زمرے میں آتا ہو، لیکن اس وقت مبیع کا کوئی وجود نہیں ہوتا، کیا بیع تام ہونے کے لیے مبیع کا موجود ہونا ضروری ہے؟
4. کیا بیع تام ہونے کے لیے مبیع کا متعین ہونا بھی ضروری ہے ؟ مثلا بعض دفعہ آرڈر ایسے وقت میں موصول ہوتا ہے جب ہمارے پاس کچھ گوشت تیار کھڑا ہے ، ہم نے ذہن میں سوچ کر کہ اس تیار گوشت میں سے اتنے کلو غیرمعین فلاں کو بیچ دیا اور کسٹمر کو ہاں کر دی اور اس کے بعد اس میں سے آرڈر کے مطابق بھیج دیا۔
5. جب تک بیع تام نہیں ہوئی اس دوران ہماری مبیع کی تیاری کی تگ ودو کس ضمن میں شمار ہو گی مثلا ہم نے کسٹمرکی طرف سے آرڈر موصول ہونے پر سپلائر سے گوشت خرید لیا اور ادھر سے کسٹمر نے انکار کر دیا تو اس نقصان کا کون ضامن ہو گا ؟
6. بعض دفعہ جب کہ ہم گوشت آرڈر کے مطابق روانہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اس دوران اسی ملک سے ہمیں کسی دوسرے کسٹمر کا مطالبہ آتا ہے، بعض دفعہ وہ زیادہ قیمت دینے کی بھی پیشکش کرتا ہے، ایسی صورت میں ہم پہلے کسٹمر یعنی جس کے لیے مال روانہ کیا گیا تھا اور اس نے ابھی قبضہ بھی نہیں کیا اس سے ایک دو دن بعد کا وعدہ کر کے یہ مال دوسرےکسٹمر کو دے دیتے ہیں، کیا اگر بیع اس سے پہلے تام ہوئی ہو تو ہمارے لیے یک طرفہ طور پر ایسا کرنا درست ہے ؟

جواب

(1)۔۔۔۔جب کسٹمر یا اس کا وکیل شپنگ کمپنی سے آپ کی طرف سے بھیجا ہوا گوشت وصول کر لیتا ہے، بیع اس وقت تام ہوتی ہے۔
(2)۔۔۔ بعض اوقات ایجاب و قبول کے بغیر محض چیز کے لینے دینے سے بھی حقیقی بیع منعقد ہو جاتی ہے، جسے بیع تعاطی کہا جاتا ہے، مذکورہ صورت میں بھی کسٹمر یا اس کے وکیل کے گوشت وصول کرنے سے پہلے تک کے تمام مراحل بشمول انوائس پر فارما وعدہ بیع کے حکم میں ہیں، جب کسٹمر آپ کی طرف سے بھیجا ہوا مال وصول کر لے گا توتعاطی کے ذریعے بیع تام ہو جائے گی، جس میں شپنگ کمپنی کا مطلوبہ گوشت مشتری (کسٹمر ) یا اس کے وکیل کےحوالے کرنا ایجاب کے قائم مقام ہو گا اور ان دونوں (مشتری یا اس کے وکیل) میں سے کسی کا وصول کرنا قبول کےقائم مقام ہو گا۔
(3)۔۔۔بیع کے صحیح ہونے کے لیے مبیع کا بائع کی ملک میں ہونا ضروری ہے ، اگر بیع کے وقت مبیع بائع کی ملک میں نہ ہو تو بیع صحیح نہیں ہوتی ، لیکن مذکورہ صورت میں چونکہ انوائس پر فار ما قبول کے حکم میں نہیں ہے، اس لیے اسے بھیجتےوقت مبیع کےآپ کی ملک میں نہ ہونے سے بعد میں ہونے والے معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ دوسرے اور تیسرے سوال کا یہ حکم تب ہو گا جب آپ نے انوائس پر فارما کےعلاوہ مشتری سے زبانی یا کسی اور طریقے مثلا ایس ایم ایس یا ای میل وغیرہ کے ذریعے ایجاب و قبول نہ کیا ہو ، اس لیےآرڈر ملنے کے وقت اگر مبیع آپ کی ملکیت اور قبضے میں نہ ہو تو آپ مشتری (کسٹمر ) سے صرف وعدہ بیع کیا کریں، پھرجب مطلوبہ گوشت آپ کی ملک اور قبضے میں آجائے تو اس وقت حقیقی بیع کی دو صورتیں ممکن ہیں:
ایک تو وہی جس کا ذکر دوسرے سوال کے جواب میں آچکا یعنی بیع تعاطی اور دوسری یہ کہ آرڈر ملنے کے بعد جب مطلوبہ گوشت آپ کی ملک اور قبضے میں آجائے تو آپ مشتری کو اس کے اوصاف بتا کر فون یا ای میل وغیرہ کسی بھی ذریعے سے باقاعدہ ایجاب کریں اور وہ اس کو قبول کرلے تو بیع منعقد ہو جائے گی، البتہ تام اسی وقت ہوگی جب مشتری یا اس کا وکیل مطلوبہ سامان شپنگ کمپنی سے وصول کرے گا۔
(4)۔۔۔بیع کے صحیح ہونے کے لیے مبیع کا اس طور پر معلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں مبیع کی حوالگی کے وقت کسی قسم کے جھگڑے کی نوبت نہ آئے ، اس کے لیے مبیع کی طرف اشارہ کر کے تعیین ضروری نہیں، بلکہ اس کی جنس اوراوصاف کو اس طور پر بیان کر دینا کہ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے، بھی کافی ہے ، اس لیے مذکورہ صورت میں بیع صحیح ہو جائے گی۔
(5)۔۔۔بنیادی طور پر وعدہ بیع سے وعدہ کرنے والے پر صرف ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا وعدہ پوراکرے، بغیر کسی عذر کے وعدہ خلافی کرنا گناہ ہے، حدیث میں اسے منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے، لیکن وعدہ کو پوراکروانے کے لیے دوسرے فریق کو عمو ماعدالتی چارہ جوئی کا حق حاصل نہیں ہوتا، البتہ اگر اس وعدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے دوسرے فریق کو نقصان اٹھانا پڑے تو اس وعدے پر بذریعہ عدالت بھی عمل کرایا جا سکتا ہے، ایسی صورت میں عدالت وعدہ کرنے والے کو اپنے وعدے کی تکمیل پر مجبور کرے گی ، اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو عدالت اسےحکم دے گی کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے دوسرے فریق کو جو حقیقی نقصان ہوا ہے وہ اسے ادا کرے۔
نقصان سے مراد وہ نہیں جسے آج کل تاجروں کے عرف میں نقصان سمجھا جاتا ہے، یعنی نفع تو ہو لیکن متوقع نفع( اپر چونیٹی کا سٹ) سے کم ہو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کی وعدہ خلافی کی وجہ سے آپ کو وہ گوشت کسی تیسرے شخص کو اس سے بھی کم قیمت پر فروخت کر نا پڑا جتنے کا وہ آپ کو پڑا تھا۔لہذا مذکورہ صورت میں وعدہ خلافی کی وجہ سے آپ کو جو حقیقی نقصان اٹھانا پڑے وہ آپ کسٹمر سے وصول کرسکتے ہیں۔
(6)۔۔۔چونکہ آپ پہلے کسٹمر کو ایک خاص وقت میں گوشت فراہم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں، اس لیے آپ کو یک طرفہ طور پر اس کا اختیار نہیں کہ آپ اسے دوسرے کو فروخت کردیں، البتہ اگر پہلا کسٹمر راضی ہو جائے ، جیسا کہ آپ نےلکھا ہے ، تو دوسرے کو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

فتح القدير " (464/17):
" وفي العناية: أما إذا قبض الموكل فلا إشكال، وأما إذا قبض الوكيل فالواجب أن يثبت الحكم للموكل، وتتعلق الحقوق بالوكيل لاجتماع القبول والقبض. انتهى ويدفع بأنه لا بد له من إضافة العقد إلى موكله وهي تجعل القبض له فصار كما إذا قبضه بنفسه۔
" تبيين الحقائق " (460/12):
" فإذا قبض الوكيل تم العقد لوجود شرطه".
تبيين الحقائق " (226/10):
قال رحمه الله : " ( وبتعاط) أي يلزم بالتعاطي أيضا ولا فرق بين أن يكون المبيع خسيسا أو نفيسا،
وزعم الكرخي أنه ينعقد به في شيء خسيس الجريان العادة ولا ينعقد في النفيس لعدمها والصحيح الأول؛ لأن جواز البيع باعتبار الرضا لا بصورة اللفظ وقد وجد التراضي من الجانبين فوجب أن يجوز".
"تبيين الحقائق " (225/15):
" وإن ذكر البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على الوجه المعتاد جاز البيع ويلزمه الوفاء بالميعاد؛لأن المواعيد قد تكون لازمة قال عليه الصلاة والسلام {العدة دين} فيجعل هذا الميعاد لازما لحاجةالناس إليه".
رد المحتار" (329/19):
" وفي جامع الفصولين أيضا: لو ذكرا البيع بلا شرط ثم ذكرا الشرط على وجه العقد جاز البيعولزم الوفاء بالوعد، إذ المواعيد قد تكون لازمة فيجعل لازما لحاجة الناس".


دارالافتاء : جامعۃ الرشید کراچی فتویٰ نمبر : 54582/55 المصباح : FDX:019
27 0