Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


والد کا اپنی زندگی میں اولاد کو ہبہ (گفٹ)کرنے کا طریقہ


سوال

عرض یہ ہے کہ ہمارے دادا نے بہت عرصہ قبل چھوٹے پیمانے پر ایک کاروبار شروع کیا تھا، دادا کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، دادا کا شروع کیاگیا کاروبار ایک وقت تک چلا جس کے بعد اس کاروبار کے معاملات اور تقسیم و غیر ہ تمام بہن بھائیوں میں کر دی گئی اور سب نے اپنا الگ ذریعہ معاش اختیار کر لیا۔ البتہ دادا صاحب مرحوم کے کاروبار کی کچھ پر اپر ٹی ابھی بھی مشترک چل رہی ہے۔ ان کے بعد ہمارے چچا اور والد صاحب نے مل کر اپنے سرمائے سے دوسرا کاروبار شروع کیا لیکن کاروبار کے کچھ عرصے بعد چچا بیرون ملک منتقل ہوئے اور پھر انہوں نے کاروبار سے اپناحصہ وصول کر لیا، یوں ان کا اور ہمارا کاروباری معاملہ بھی الگ ہو گیا۔

اپنا حصہ وصول کر کے چچا کے الگ ہونے کے بعد والد صاحب نے اس کاروبار کو آگے بڑھایا جو ایک فیکٹری کی صورت میں ابھی بھی چل رہا ہے،ہمارے والدین الحمد للہ حیات ہیں اور ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں، ہماری (مذکورہ بالا ) ایک فیکٹری اور کچھ دیگر جائیداد ہے، جس میں باہمی مفاہمت سے چار فریق حصہ دار ہیں ؛ دو بھائی (% 25 %25 ) والدین ( %25 ) ایک بہن ( %25 ) ۔ ( واضح رہے کہ ساری جائیداد والد صاحب کی ہےاور یہ تقسیم کچھ عرصہ قبل ان کی رضامندی سے کی گئی ہے، اس سے قبل ہمارے درمیان تمام معاملات بغیر تعیین و تقسیم کے چل رہے تھے )فیکٹری کے اندر دو بھائی بطور ڈائریکٹر کام کرتے ہیں جس پر وہ با قاعدہ لگی بندھی تنخواہ وصول کرتے ہیں، والد صاحب بھی فیکٹری کے معاملات میں حسب ِاستطاعت معاونت کرتے ہیں ان کی بھی تنخواہ مقرر ہے۔ جبکہ بہن کا روبار میں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی ہیں۔ فیکٹری کاروبار میں جوسرمایہ لگا ہوا ہے وہ سارا والد صاحب کے شروع کئے گئے کاروبار کا ہے لیکن ابھی وہ بھی درج بالا ترتیب کے مطابق چاروں فریقوں کےدر میان %25 کے اعتبار سے مشترک ہے اور نفع کی تقسیم بھی اسی اعتبار سے کرنے کاطے کیا ہے۔

اس فیکٹری کے علاوہ جو ہماری جائیداد ( پلاٹ، گھر، شئیر ز وغیرہ) ہے اس میں بھی یہی فارمولہ ہے کہ درج بالا چاروں فریق %25 کے حصہ دارہیں، فی الحال تو تمام پلاٹ و غیر ہ ر کھے ہوئے ہیں لیکن سوچا یہی ہے کہ جب بھی ان کو فروخت کریں گے تو سب کو اسی حساب سے رقم دی جائےگی البتہ شیئر ز سے حاصل شد ہ نفع باہم تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جائیداد، چیزیں وغیرہ شر کاء کی ذاتی بھی ہیں۔

کاروبار، سرمایہ، جائیداد وغیرہ کی درج بالا تقسیم کی ترتیب ہم نے باہمی مفاہمت سے زبانی طے کی ہے ، اس کی باقاعدہ کوئی تحریری شکل طے نہیں کی ہے، بلکہ کچھ قانونی مسائل کی وجہ سے ہماری فیکٹری کا پلاٹ والد صاحب اور ایک بھائی کے نام پر ہے، جائیداد/ پلاٹس مختلف ناموں پر ہیں،جبکہ کمپنی پھوپھی کے نام پر رجسٹر ڈ ہے ( جن کا اس وقت اس کمپنی میں کوئی شئیر نہیں ہے)۔

فی الحال فیکٹری کا سارا کاروبار پھو پھی کے نام سے رجسٹرڈ کمپنی کے ماتحت چل رہا ہے لیکن چونکہ ان کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ مستقبل میں کچھ قانونی معاملات کے پیشِ نظر باہمی مشاورت سے ہم نے کچھ عرصہ قبل نئی کمپنی رجسٹرڈ کی تاکہ جو کمپنی ہماری پھوپھی کے نام پررجسٹر ڈ ہے اس کا سارا کاروبار آہستہ آہستہ اپنے نام سے رجسٹرڈ کمپنی پر منتقل کریں۔ اس سے گو یا کار و بار وہی چلتا رہے گا لیکن دو بھائیوں کے نام پر کمپنی رجسٹریشن اور کاروبار کو اس پر منتقل کرنے سے آئندہ کے تمام قانونی و دیگر معاملات آسان ہو جائیں گے ۔ گویا اس کمپنی میں حقیقی حصہ دار چار فریق ہیں لیکن نئی کمپنی کی رجسٹریشن صرف دو بھائیوں کے نام پر کی گئی، والدین اور بہن کا نام کچھ قانونی مجبوریوں (والد صاحب کی عمرزیادہ ہونے اور بہن کوپاکستان سے باہر ہونے) کی وجہ سے شامل نہیں کیا گیا۔

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کمپنی کے کاروبار میں با قاعدہ طورپر دو بھائی کام کرتے ہیں جس پر وہ معاوضہ وصول کرتے ہیں اور ان کی تنخواہ مقرر ہے لیکن کاروبار کی نوعیت اور کچھ دیگر امور کی وجہ سے تنخو اہ ر سمی سی رکھی گئی ، اپنے کام کا بقیہ معاوضہ وہ حسب ِضرورت (جس میں ماہانہ گھر یلو اخراجات اور دیگر بڑے اخراجات مثل گھر کی تعمیر ، گاڑی کی خریداری وغیرہ شامل ہیں) کاروبار سے لیتے رہتے ہیں، اس میں کوئی خاص حد بندی نہیں لیکن چونکہ باہمی معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں تو ہر شخص حسب ضرورت جو رقم کاروبار سے وصول کرے تو دوسرے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ والدین کے ضروری اخراجات بھی کاروبار سے ہی لئے جاتے ہیں، حسب ِضرورت پھوپھی یا دیگر رشتہ داروں کوبھی کاروبار کے مشترکہ اکاؤنٹ سے رقم دی جاتی ہے۔

کاروبار میں رقم کی موجودگی کی صورت اس طرح رہتی ہے کہ پیسہ جیسے آتا ہے تو خریدے گئے مال کے قرضوں، ملازمین کی تنخواہوں اور دیگرکاروباری اخراجات میں صرف ہو جاتا ہے، کمپنی اکاؤنٹ میں مستقل پیسہ نہیں رہتا ہے، گویا پیسہ آتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے، اس بات کے پیش ِنظرہم نے کاروباری شر کا ء کے لئے بطور معاوضہ، خرچہ یا نفع و غیرہ کے لئے کوئی مخصوص رقم فکس نہیں کی، ہم سوچتے ہیں کہ چونکہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں رقم کی موجودگی ہر وقت مشکل ہے لہذا مقرر کرنے کی صورت میں وہ مخصوص رقم دینی پڑے گی جو ہمارے لئے مشکل کا سبب بن جائے گا۔کچھ عرصے سے کاروبار سے کمپنی اور ہمارے اخراجات ہی پورے ہو رہے ہیں کوئی نفع حاصل نہیں ہوا، اور دوسری طرف درج بالا حصوں کی تقسیم کی ترتیب بنائے زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا ہے، لہذا ہم نے کمپنی سے حاصل شدہ نفع بھی تقسیم نہیں کیا ہے۔ (بلکہ ہر شریک بغیر تعیین حسبِ ضرورت رقم لیتا رہتا ہے)۔
درج بالا صور تحال کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1. ہم دونوں بھائی جو بطور ڈائیریکٹر کمپنی میں با قاعدہ انتظامی نوعیت کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ کیا ہمارے لئے اپنے عمل کا معاوضہ / تنخواہ مقرر کرنا درست ہے ؟ اگر معاوضہ لینا درست ہو تو کیا اس کی تعیین ضروری ہے یا حسب ضرورت بھی لیا جا سکتا ہے؟

2. گزشتہ کچھ سالوں سے کاروبار سے محض ادارے اور شرکاء کے اخراجات پورے ہوتے ہیں، خاطر خواہ نفع نہیں ہوتا اور جو تھوڑا بہت ہوتا ہےتو کاروباری ضرورت کی وجہ سے نکال نہیں سکتے ، جس کی وجہ سے نفع کا کوئی حساب نہیں رکھا جاتا، کیا ایسی صورت میں نفع کی تقسیم یا حساب کتاب رکھناشر عاًلازم ہے؟ دونوں بھائیوں کی مقرر کردہ تنخواہ کم ہے، وہ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے اس رقم سے زیادہ لیتے ہیں،والدین الحمد للہ دونوں حیات ہیں، اور دونوں کا کل حصہ٪ 25 ہے، لیکن ہم نے یہ سوچا ہے کہ والدین میں سے اگر کوئی ایک بھی حیات ہو تواس کا اکیلا حصہ بھی پورا ٪25 ہو گا، کیا یہ بات درست ہے اور اگر نہیں ہے تو اس مقصد کے لئے شرعا ًکیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟

3. کیا باہمی رضا مندی سے کاروباری کے مشترکہ رقم کے ذریعے حسب ضرورت بغیر تعیین کے رشتہ داروں کی مالی معاونت کی جاسکتی ہے؟درج بالا ہمارے کاروباری صور تحال میں مزید کوئی امر قابل اصلاح ہو، براہ کرم آگاہ فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
وضاحت: فیکٹری قابلِ تقسیم نہیں ہے، اور والد صاحب نے اصل فیکٹری ہی کو ایک یا زبانی ہبہ کیاہے، اور پھر کاروبار مشترک ہوگیا۔

جواب


الجواب حامداًومصلیاً

(1) آپ دونوں بھائی مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اپنے لیے اس شرکت کے کاروبار میں تنخواہ مقرر کر سکتے ہیں:
1. شرکت (کاروبار) کا عقد الگ سے کر لیا جائے، اور تنخواہ پر کام کرنے کا معاہدہ الگ سے اس طرح کر لیا جائے کہ اگرباقی شرکاء آپ دونوں بھائیوں کو ملازمت سے معزول کر دیں، تو اس کا اثر شرکت کے کاروبار پر نہ پڑے۔

2. یہ تنخواہ ان کاموں کے عوض ہو، جن کے لیے عرف میں کسی کو ملازم رکھا جاتا ہے، اور وہ کام شر کاء کی ذاتی ذمہ
داری نہ سمجھے جاتے ہوں۔ (مستفاد من التبويب : 90/1946، مصدقہ حضرت شیخ الا سلام صاحب مدظلہ)
اور کاروبار سے رقم لینے کی یہ صورت اختیار کی جائے کہ پہلے اپنی تنخواہ مقرر کریں، اور پھر حسبِ ضرورت جور قم لیں، وہ
اس تنخواہ میں سے لیں، اگر زیادہ رقم لی تو وہ اپنے نفع میں سے شمار کریں، اور بقیہ شرکاء کو بھی ان کے نفع میں سے رقم دی جائے۔(1)

(2)منافع کی تقسیم میں حساب کی پوری جانچ پڑتال ضروری ہے، حساب و کتاب کے بغیر کچھ لینا دینا جائز نہیں؛ لہذا
اس سے پہلے شرکاء اپنے اخراجات پورا کرنے کی غرض سے جو ر قم حساب رکھنے کے بغیر لیتے رہے، اس پر توبہ واستغفارکریں (مستفاد من احسن الفتاوی: ۳۹۵/۶)

(3) واضح رہے کہ والدین میں سے کسی کا انتقال پہلے ہو جانے کی صورت میں اس کا حصہ مکمل طور پر دوسرے کےحوالے نہیں کیا جاسکتا، بلکہ انتقال کے بعد میت کا حصہ اس کے شرعی ورثاء کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ البتہ اگر ورثاء بعدمیں اس طرح کرنا چاہیں تو اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ تمام عاقل بالغ ور ثاء اپنے اپنے حصے کے بدلے میں کچھ مال لے کر اس کے بدلے بقیہ حصے سے والدین میں سے جو بقید حیات ہو، اس کے حق میں دست بردار ہو جائیں، یا پھر اپنا اپناحصہ لینے کے بعد اپنی رضامندی سے اس کو ہبہ (گفٹ) کر دیں، مگر اس صورت میں عملی قبضہ دینا بھی ضروری ہے۔(2)

(4) اگر تمام شرکاء باہمی رضامندی سے حسب ضرورت رشتہ داروں کی مالی معاونت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اور ایسا
کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔(3)

(5) واضح رہے کہ والد کا اپنی زندگی میں اولاد کو کوئی چیز دینا شر عاًہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، اور قابل تقسیم چیز کو ہبہ کرنے کے بعد شرعا ًتقسیم کر کے ہر ایک کو قبضہ دینا بھی ضروری ہے، البتہ جو چیز قابل ِتقسیم نہ ہو اس کا ہبہ کرنے کے بعدصرف قبضہ بھی کافی ہے، تقسیم ضروری نہیں؛ لہذا سوال میں ذکر کردہ بیان کے رو سے بحالت موجودہ ہبہ صرف ان چیزوں میں درست ہوا ہے، جو قابلِ تقسیم نہیں ہیں، جیسے فیکٹری وغیرہ، اسی طرح شیئر ز بھی ہر ایک کے نام کیے جائیں،اور جو املاک قابلِ تقسیم ہیں، جیسے پلاٹ اور بڑا گھر ، تو ان میں ہبہ بغیر تقسیم کے درست نہیں ہوا، بلکہ ایسے تمام املاک حسبِ سابق والد صاحب ہی کی ملکیت ہیں؛ لہذا ہبہ کرنے کے بعد تقسیم کر کے ان میں سے ہر ایک کو اپنا حصہ مالک وقابض بنا کر دینا ضروری ہے۔(4)

(1)
فتح المعين شرح الكثر لمنلا مسكين مع حاشية أبي السعود (٢٥٠/٣)

(وإن استأجره لحمل طعام بينهما فلا أجر (له أي إذا كان الطعام مشتركا بين رجلين، فإن استأجر أحدهما صاحبه، أو حمار صاحبه، ليحمل نصيبه منه إلى مكان كذا، فحمل الطعام كله، فلا أجر له، لا المسمى، ولا أجر المثل، وقال الشافعي:له المسمى. ] وقال أبو السعود تحت قوله وقال الشافعي: له المسمى [ وبه قال مالك وأحمد. عيني.] واختاره في أحسن الفتاوى: ٣٢١/٧[


(2)
الاختيار لتعليل المختار (٥/ ٨٥)

والإرث في الشرع : انتقالُ مَالِ الْغَيْرِ إِلَى الغَيرِ عَلَى سَبِيلِ الْخِلَافَةِ، فَكَأَنَّ الْوَارِثَ لبقائِهِ انْتَقَلَ إِلَيْهِ بَقيةُ مَالِ الْمَيِّتِ.

الفتاوى الهندية(۲۶۸/۴)

إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه أياه والتركة عقار أوعروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا.

مجلة الأحكام العدلية (ص: ١٦٥)

(المادة ٨٥٩) يُشترط أنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ عَاقِلا بالغًا، بِنَاءً عَلَيْهِ لَا تَصحُ هِبَهُ الصغيروَالْمَجْنُونِ وَالْمَعْتُومِ، وَأَمَّا الْهَبَةُ لِهَؤُلَاءِ فَصَحِيحة
(الْمَادَّةُ: ٨٦٠) يَلْزَمُ فِي الْهَبَةِ رِضَاءُ الْوَاهِبِ، فَلَا تَصِحُ الْهَبَةُ الَّتِي وَقَعَتْ بِالْخَيْرِ وَالْإِكْرَاهِ

(3)
مشكاة المصابيح (٦٠٤/١) [الفصل الثاني من باب أفضل الصدقة، كتاب الزكاة]

وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي.

(4)
بدائع الصنائع (٦ / ١١٩) [كتاب الهبة]

(ومنها) [أي من شرائطها أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم وتجوز فيما لا يقسم كالعبد والحمام والدن ونحوها.

الدر المختار مع رد المحتار (٥ / ٦٩٧)

(وهب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا.. والله سبحانه وتعالى أعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2432/40 المصباح : FS:006
24 0