Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


مویشی فارمنگ پارٹنرشپ ایگریمنٹ کا شرعی حکم


سوال

ہماری گوشت ایکسپورٹ کی کمپنی ہے ، ہم اپنی کمپنی کی گوشت کی ضروریات پوری رکھنے کے لئے مختلف فارم والوں سے معاہدہ کرتےہیں، جس میں جانور خرید کر فارم والوں کو دیے جاتے ہیں اور فارم والوں کے ذمہ ان کی پرورش اور وزن کو بڑھانا ہوتا ہے، اور اس عمل کی ایک مخصوص اجرت طے ہوتی ہے جس کی تفصیل ذیل کے معاہدہ نامہ میں موجود ہے، آپ سے درخواست ہے کہ معاہدہ نامہ ملاحظہ فرما کر معاہدے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں، جزاکم اللہ خیرا
1. کمپنی جانور خرید کر خالد کے فارم میں پہنچائے گی، جہاں مناسب فیڈنگ کے بعد منتخب جانوروں کو واپس مرحلہ وار اپنے مذبح خانہ لے جائے گی۔
2. خالد جانوروں کے پہنچ جانے کے بعد درج ذیل کام کرے گا:
a. آنے والے ہر جانور کی جانچ پڑتال کرے اور کمزور جانوروں سے متعلق آگاہ کرے کہ پر ورش سے ان کی ترقی ممکن ہےیا نہیں۔
b. جو جانور پر ورش کے قابل ہوں گے خالد ابتداء جانوروں کا وزن کرے گا، ان پر ٹیگ لگائے گا، ان کی ویکسینیشن کرےگا اور کیڑوں وغیرہ سے پاک کرے گا۔ اس کے اخراجات کمپنی اور خالد دونوں برابر بر داشت کریں گے۔
c. اس کے بعد جانوروں کو بارہ سے چوبیس گھنٹے تک کھلائے پلائے گا اور اس کے بعد دس گھنٹے تک بھوکا رکھنے کے بعد کمپنی کے نمائندہ کی موجودگی میں دوبارہ وزن کرے گا ، اور ابتدائی دونوں وزنوں سے کمپنی کو ایک دن کے اندر اندر مطلع کرے گا۔
d. دوبارہ وزن کرنے تک کھلائی پلائی کے اخراجات کمپنی دو سو کلو کے جانور تک کے 120 روپے فی دن کے حساب سےبرداشت کرے گی۔
3. خالد کو جانوروں کو پالنے کی اجرت اس طرح دی جائے گی کہ کمپنی خالد کو جانور کی قیمت خرید سے آگاہ کر دے گی، اور اس قیمت کوجانور کے ابتدائی وزن (جو کھلائی پلائی کے بعد دوبارہ کیا گیا تھا) پر فی کلو کے اعتبار سے تقسیم کر دیا جائے گا، مثلاً جانور 500 میں خرید ا گیا اور اس کا وزن دس کلو تھا تو جانور فی کلو 50 روپے سمجھا جائے گا اور جب جانور خالد سے پرورش کے بعد واپس لیا جائے گا تواس وقت جتنا وزن بڑھا ہو گا اس کو 50 روپے کے حساب سے اتنی ہی اجرت دی جائے گی ، (مثلاً واپس لیتے وقت وہ جانور 20 کلو کاتھا تو خالد کی اجرت 500 روپے ہو گی) اور اگر وزن بالکل نہ بڑھا ہو تو کوئی اجرت نہیں دی جائے گی۔
4. اس فائنل وزن کے وقت باہمی رضامندی سے 3 فیصد وزن کم شمار کیا جائے گا، کیونکہ جانور کا وزن بعد میں سکڑنے کی وجہ سے کم نکلتا ہے۔
5. جانوروں کے علاج معالجہ کے اخراجات کمپنی بر داشت کرے گی۔
6. خالد کے ذمہ ہے کہ جانور بیمار ہونے پر جلد از جلد کمپنی کو مطلع کرے، تاہم اگر کوئی جانور خالد کے پاس کسی بھی وجہ سے مر گیاجس کو ذبح بھی نہ کیا جا سکا تو بہر حال خالد جانور کی اصل قیمت خرید میں سے 50 فیصد برداشت کرنے کا پابند ہو گا۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ معاہدہ شرعی لحاظ سے اجارہ " کے زمرے میں ہے، اس میں کمپنی "آجر " ( کرایے پر لینےوالا) اور ڈیری فارم والا ( خالد ) " اجیر " (مزدور) ہے، جانوروں کی پرورش کرنا " معقود علیہ " (مطلوبہ کام) ہے، البتہ فقہی اعتبارسے بعض خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے ، جو مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔۔۔ شق نمبر (2 ) میں ویکسینیشن کے اخراجات کمپنی اور خالد دونوں کے ذمہ ہونا درست نہیں ہے بلکہ شرعا تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ ہیں ۔ (کیونکہ جانوروں کی اصل مالک کمپنی ہے)
2۔۔۔ شق نمبر (3) میں اجرت کو وزن بڑھانے کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں ہے، اس میں غرر (غیر یقینی صورت حال) پایا جاتا ہے کیونکہ وزن کا بڑھنا اور نہ بڑھنا یقینی نہیں ہے۔
تاہم یہ معاہدہ اس طور پر جائز ہو سکتا ہے کہ شق نمبر (2) میں ویکسینیشن کے تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ کر دئےجائیں، اور شق نمبر (3) میں خالد کے لئے ایک مخصوص اجرت فی دن کے حساب سے جانوروں کی پرورش کے عوض مقرر کرلی جائے، پھر وزن کی ایک مخصوص مقدار بڑھنے پر خالد کے لیے بطور انعام کچھ رقم مقرر کر لی جائے۔البتہ یہ بات واضح رہے کہ اس صورت میں جانور کا وزن بڑھے یانہ بڑھے، بہر صورت خالد فی دن کی طےشدہ مخصوص با اجرت کا مستحق ہوگا۔

الفتاوى الهندية (4 / 500)
وإنما يُعرف استحقاق الآخر يتسليم النفس ومُضِي الْمُدَّةِ بإيقاعِ الْعَقْدِ عَلَى الْمُدَّةِ كَمَا لَوْ اسْتَأْجَرَ إِنْسَاناً شَهْرًا لِيَحْدُمَهُ وَالْإِجَارَةُ عَلَى الْعَمَلِ إِذَا كَانَ مَعْلُومًا صَحِيحَةٌ بِدُونِ بَيَانِ الْمُدَّةِ وَالْإِجَارَةُ عَلَى الْمُدَّةِ لَا تَصِحُ إِلَّا بَيَانِ نَوْعِ الْعَمَلِ وَإِذَا جَمَعَ بَيْنَ العمل وبين المدة وذكر العمل أولا نحو أنْ يَسْتَأْجِرَ رَاعِبًا مَثَلًاليَرْعَى لَهُ غَنَما مُسَمَّاهُ بِدِرْهَم شَهْرًا يُعْتَبَرُ هُوَ أَجِيا مُشْتَرَكًا إِلَّا إِذَا صَرَّحَ فِي آخِرٍكلامه بما هُوَ حُكْمُ أَجِيرٍ الْوَحْدِ بِأَنْ قَالَ عَلَى أَنْ لَا تَرْعَى غَلَمَ غَيْرِي مَعَ غَنَمِي وإذا ذكر المُدةَ أَولا نحو أنْ يَسْتَأْجِرَ رَاعِبًا شَهْرًا لِيَرْعَى لَهُ فَلَمَّا مُسَمَّاةٌ بِدِرْهُم يُعْتَبَرُلهو أجير وحد بأول الكلام إلا إذا نص في آخر كلامه بما هو حكم الأحمر الْمُشْتَرَكِ فَيَقُولُ وَتَرْعَى غنم غَيْرِي مَعَ علمي كذا في الأخيرة.وَالْأَوْعهُ أَنْ يُقَالَ الأجيرُ الْمُشْتَرَك مَنْ يَكُونُ عَقْدُهُ وَارِدًا عَلَى عَمَلٍ مَعْلُومٍ بِبَيَانِ عَمَلِهِ وَالْأَجيرُ الخاص مَنْ يَكُون العقد وَاردًا عَلَى مَنَافِعِهِ وَلَا تُصِيرُ مَنَافِعُهُ مَعْلُومَة إِلَّا بِذِكْرِ الْمُدَّةِ أَوْ بِذِكْرِ الْمَسَافَةِ، كَذَا فِي التَّنْبِينِ
بدائع الصنائع دار الكتب العلمية - (4 / 184)
وأما في الأجير الخاص فلا يشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته، وإنما يشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استجار الظهر شرطجوازه بمنزلة استئجار العبد للخدمة؛ لأن المعقود عليه هو الخدمة، فما جازفيه جاز في الظئر وما لم يجز فيه لم يجز فيها،
الفتاوى التاتارخانية (15\74):
وما يعالج به الصبيان من الريحان والدهن فهو على الظئر, وكان ذالك عرف ديارهم أما في عرف ديارنا ما يعالج به الصبيان على أهله, وفي المضمرات والفتوى على أنه ليس عليها الدهن والريحان وطعام الصبي على أهله إن كان الصبي يأكل الطعام
الدر المختار (6 / 65)
(وَلَا يَضْمَنُ مَا هَلَكَ فِي يَدِهِ وَإِنْ شَرَطَ عَلَيْهِ الضَّمَانَ) ؛ لِأَنَّ شَرْطَ الضَّمَانِ فِي الأمانةِ بَاطِل كَالْمُودَعِ وَبِهِ يُقى كَمَا فِي عَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ، وَبِهِ جَزَمَ أَصْحَابُ المُتُونِ فَكَانَ هُوَ الْمَذْهَبُ خِلَاقًا لِلْأَشْبَاءِ، وَأَفْقَ الْمُنَاخِرُونَ بِالصُّلْحِ عَلَى نِصْفِ الْقِيمَةِ، وَقِيلَ إِنَّ الْأَجِيرَ مُصْلِحاً لا يَضْمَنُ، وَإِنْ خِلَافِهِ يَضْمَنُ، وَإِنْ مستور الحال يُؤمَرُ بِالصُّلْحِ عِمَادِية، قلتُ: وَهَلْ يُجبَرُ عَلَيْهِ؟ حرز في تنويرالْبَصَائِرِ نَعَمْ كَمَنْ قَمَتْ مُدَّتُهُ في وَسَطِ الْبَحْرِ أَوْ الْبَرِيَّةِ تَبْقَى الْإِجَارَةُ بِالجُيْرِ
وفي حاشية ابن عابدين :
(قَوْلُهُ وَلَا يَضْمَنُ إلى اعْلَمْ أَنَّ المَلاكَ إمَّا بِفِعْلِ الْأَجِيرِ أَوْ لَا، وَالْأَوَّلُ إِمَّابالتعدي أو لا. والثاني إما أن تمكين الاخيراز عنه أو لا، فَفِي الْأَوَّلِ بِقِسْمَيْهِ يَضْمَنُ اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يَضْمَنُ اتفافًا وَفِي أَوَّلِهِ لا يَضْمَنُ عِنْدَ الْإِمَامِ مطلقا وَيَضْمَنُ عِنْدَهُما مُطلقا. وَأَفْتَى الْمُتَأْخِرُونَ بِالصُّلْحِ عَلَى نِصْفِ الْقِيمَةِ مطلقا، وقيل إن مُصْلِحا لا يَضْمَنُ وَإِن غَيْرَ مُصْلِحٍ ضَمِنَ، وَإِن مَسْئُورًافالصلح الهاج وَالْمُرَادُ بِالإطلاقِ فِي الْمَوْضِعَيْنِ الْمُصْلِحُ وَغَيْرُهُ.
الموسوعة الفقهية الكويتية - (15 / 77)
الأصل إباحة الجائزة على عمل مشروع سواء اكان دينيا أو دنيويا لأنه من باب الحث على فعل الخير والإعانة عليه بالمال وهو من قبيل الهية....... والله سبحانه و تعالی اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2055/52 المصباح : FDX:022
28 0