Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


حكومت کے تمام قوانین کی اطاعت کرنا ضروری ہے ؟


سوال

درج ذیل مسئلہ پر آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
حکومت کی طرف سے عوام کے لئے بہت سے قوانین لاگو کئے جاتے ہیں، انہیں میں سے بعض قوانین ایسے ہیں جو حکومت نےتجارتی اداروں اور کمپنیوں کے لئے بھی لاگو کئے ہیں کہ وہ ان قوانین کے مطابق اپنے ملازمین کے ساتھ معاملہ کرنے کے پابند ہیں، اب سوال یہ ہے کہ
1. حکومت کے ان تمام قوانین کا شرعی حکم کیا ہے، کیا ان کا ماننا فرض ہے یا واجب ، اور کیا ان کے توڑنے والا گناہ گار ہو گا یانہیں؟
2. کیا حکومت کے متعین کردہ تمام جائز قوانین کا ایک ہی درجہ ہے ، یا ان میں کچھ درجہ بندی ہے کہ بعض کے توڑنے کا گناہ زیادہ ہے اور بعض کا کم وغیرہ، اور اگر ان میں درجہ بندی ہے تو اس کا معیار کیا ہے ؟
3. بعض ایسے قوانین جو معمولی درجے کے سمجھے جاتے ہیں، مثلاً ڈبل سواری پر پابندی، ڈرائیونگ کے وقت ہر قسم کے لائسنس (جن میں ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کا لائسنس وغیرہ شامل ہیں) اپنے پاس رکھنا ، ہیلمٹ پہننا، اتوار کے دن اداروں میں چھٹی کرناوغیرہ، ایسے قوانین کی عموما پابندی نہیں کی جاتی اور حکومتی اداروں کے علم میں بھی یہ بات ہوتی ہے، کیا اس طرح کے قوانین توڑنے کا بھی گناہ ہو گا، اور کیا یہ گناہ بھی اسی درجے کا ہو گا جس طرح بعض دیگر سخت قوانین کے توڑنے کا ہوتا ہے؟
4. بعض دفعہ حکومت کی طرف سے وقت کو ایک گھنٹہ آگے یا پیچھے کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے ، عموماًدیکھا گیا ہے کہ مدارس اور مساجد میں اس حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ، تو ایسی صورت میں کیا مدارس اور مساجد کے منتظمین گناہ گارہونگے ، اور کیا ان پر بھی حکومتی قانون توڑنے کا گناہ ہو گا؟
برائے مہربانی حکومتی قوانین سے متعلق تمام احکامات تفصیل سے وضاحت فرمادیں، جزاکم اللہ خیرا

جواب

واضح رہے کہ حکومت کے قوانین بہت سارے ہیں اور ان تمام کے بارے میں شرعی اعتبار سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک کہ ہر قانون کی نوعیت اور حقیقت سامنے نہیں آجاتی ، اس کی نوعیت سامنے آجانے کے بعد ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس قانون کی پابندی شرعاًلازم اور ضروری ہے یا نہیں نیز یہ بھی کہ یہ پابندی کن لوگوں کے حق میں لازم ہے اور کن پر لازم نہیں ہے۔ لہذا آپ جن قوانین کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا چاہتے ہیں ان کی نوعیت و صورت متعین کرنے کے بعد لکھ کر بھیج دیں ، ان پر غور کر کےانشاء اللہ تعالیٰ جواب دے دیا جائیگا۔تاہم جن متعینہ قوانین کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے ان کے جوابات درج ذیل ہے:
(۳،۲،۱)۔۔۔ مذکورہ قوانین میں سے ڈبل سواری پر پابندی، ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کا لائسنس، ہیلمٹ پہنا، یہ تمام قوانین چونکہ عوام کی بہتری اور فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں، اور ان کی پابندی سے لوگوں کو فائدہ بھی ہورہا ہے اور ان کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں کبھی اپنی ذات کو اور کبھی دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے لہذا ان کی پابندی کرنا شرعاً بھی لازم ہے۔
جہاں تک اتوار کے دن کی چھٹی کا قانون ہے تو شرعی اعتبار سے جمعہ کی چھٹی کو ختم کر کے اس کی جگہ اتوارکی چھٹی کا قانون بنانا اگر چہ حلال و حرام کا مسئلہ نہیں ہے لیکن روز جمعہ کے فضائل کے مقابلے میں اتوار کی چھٹی کولازم کرنا بہر حال اسلامی نقطۂ نظر سے کوئی امر مستحسن نہیں ہے، بلکہ ایک مرجوح اور غیر مستحسن امر ہے لہذا اگرکوئی شخص یا ادارہ اپنا فائدہ اس کے خلاف میں سمجھتا ہو ، اور اپنی ذات کی حد تک اس قانون پر عمل نہ کرے تو اس میں شرعا ًکوئی حرج نہیں ہے۔ (ماخذہ تبویب: ۱۳۹۹/ ۶۴)
(۴)۔۔۔ مذکورہ حکومتی قانون پر عمل کرنا واجب نہیں ہے اس وجہ سے کہ یہ قانون اگر چہ ایک مباح امر ہے ، لیکن کسی شخص کی اپنی ذاتی گھڑی کا وقت تبدیل کرنے کے ساتھ کوئی بھی عوامی مصلحت بھی وابسطہ نہیں ہے، اورحکومت کے جائز قوانین پر عمل کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کہ اس قانون کے ساتھ کوئی عوامی مصلحت وابسطہ ہو ،لہذا اگر کوئی شخص یا کوئی غیر سرکاری ادارہ اس قانون پر عمل نہ کرے تو وہ شخص یا اس ادارے کےمنتظمین گناہ گار نہیں ہوں گے۔
تاہم دفتروں اور سرکاری اداروں میں اس قانون کی پابندی کرنا لازم ہو گا کیونکہ اس جیسا قانون بجلی کےاستعمال کو کم کرنے کی مصلحت کے تحت بنایا جاتا ہے ، لہذا سرکاری محکموں اور متعلقہ اداروں اور افراد پر یہ قانون لاگو ہو گا۔ (ماخذہ تبویب: ۷۶/۱۰۷۱)

تفسير الطبري - ط الرسالة -ت أحمد شاكر (8/ 502)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
قال أبو جعفر: وأولى الأقوال في ذلك بالصواب، قول من قال: هم الأمراء والولاة - لصحة الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالأمر بطاعةالأئمة والولاة فيما كان [الله] طاعة، وللمسلمين مصلحة
بدائع الصنائع (7/ 99)
وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته لأنها طاعة الإمام إلا أن يأمرهم بمعصية فلاتجوز طاعتهم إياه فيها لقوله عليه الصلاة والسلام لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ولو أمرهم بشيء لا يدرون أينتفعون به أم لا فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية لأن اتباع الإمام في محل الاجتهاد واجب كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد والله تعالى عز شأنه أعلم
بدائع الصنائع (7/ 99)
وإذا أمر عليهم يكلفهم طاعة الأمير فيما يأمرهم به، وينهاهم عنه؛ لقول الله تبارك وتعالى - {يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمرمنكم} [النساء: 59] وقال - عليه الصلاة والسلام -: «اسمعوا وأطيعوا،ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع ما حكم فيكم بكتاب الله - تعالى» ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -:لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق
وفي تكملة فتح الملهم: 3،323
ولكن هذه الطاعة كما أنها مشروطة بكون أمر الحاكم غير معصية، فإنهامشروطة أيضا بكون الأمر صادرا عن مصلحة لا عن هوى أو ظلم، لأن الحاكم لا يطاع لذاته، وإنما يطاع من حيث أنه متول لمصالح العامة، فإن أمربشيء اتباعا لهوى نفسه دون نظر إلى مصالح المسلمين، فإنه إمر صدر من ذاته وشخصه، لا من حيث كونه حاكما ، فلا يقع بمثابة أمره من حيث كونه حاكما، ولذالك قال الفقهاء: تصرف الإمام على الرعية منوط بالمصلحة) وقد فصل إبن نجيم هذه القاعدة في الأشباه والنظائر
الأشباه والنظائر لابن نجيم - (1 / 123)
القاعدة الخامسة: تصرف الإمام على الرعية منوط بالمصلحة
الأشباه والنظائر لابن نجيم - (1 / 124)
إذا كان فعل الإمام مبنيا على المصلحة فيما يتعلق بالأمور العامة لم ينفذأمره شرعا إلا إذا وافقه ، فإن خالفه لم ينفذه
درر الحكام شرح مجلة الأحكام - (1 / 51)
أن تصرف الراعي في أمور الرعية يجب أن يكون مبنيا على المصلحة, وما لم يكن كذلك لا يكون صحيحا . والرعية هنا : هي عموم الناس الذين هم تحت ولاية الولي…واللہ سبحانہ وتعالی اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1580/20 المصباح : MDX:008
28 0