درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
1. گورنمنٹ کی طرف سے قانون ہے کہ کمپنی اپنے ملازمین کو ان کے فارغ ہونے پر گریجویٹی کے نام سے رقم دیتی ہے، جس کا اصول یہ ہے کہ ملازم کی آخری گر اس سیلری (الاؤنسز سمیت مکمل تنخواہ) کو اس کی ملازمت کے سالوں سے ضرب دی جاتی ہے اور وہ مقدار اس ملازم کی گریجویٹی قرار ہوتی ہے ، مثلاً کسی ملازم کی ادارہ چھوڑتے وقت آخری تنخواہ دس ہزار ہےاور اس نے دس سال ادارے میں کام کیا ہے تو اس کے گریجویٹی فنڈ کی رقم ایک لاکھ ہوگی۔ہمارےادارےمیں ایسا ہوا کہ قانون سے لاعلمی کی وجہ سے بعض ملازمین کو ان کی فراغت کے وقت گریجویٹی گراس سیلری( الاؤنسز سمیت مکمل تنخواہ) کی بجائے ان کی بیسک (Basic) سیلری (الاؤنسز کے بغیر تنخواہ)کے مطابق بنا کر دی گئی ، چنانچہ ذکر کر دہ مثال میں جس ملازم کی تنخواہ دس ہزار ہے تو اس کی بیسک تنخواہ تقریباً 6 ہزار ہےاور اس اعتبار سے اس کی دس سالوں کی گریجویٹی ساٹھ ہزار بنتی ہے ، اور اس طرح چالیس ہزار کا فرق رہ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ جو ملازمین اپنی گر یجو یٹی (Basic ) سیلری کے حساب سے لے کر جاچکے ہیں ، کیا ایسے ملازمین کو ان کی گریجویٹی میں گراس سیلری کے اعتبار سے رہ جانے والا فرق ادا کرنا کمپنی کے ذمہ ضروری ہے ؟واضح رہے کہ ملازم سے معاہدۂ ملازمت کے وقت گریجویٹی کی ادائیگی، مقدار ، وقت وغیرہ کا کوئی ضابطہ وغیرہ طے نہیں کیاجاتا۔
2. گورنمنٹ کی طرف سے قانون ہے کہ کمپنی اپنے ملازمین کو ان کے فارغ ہونے پر گریجویٹی کے نام سے رقم دیتی ہے، جس کا اصول یہ ہے کہ ملازم کی آخری گراس سیلری ( الاؤنسز سمیت مکمل تنخواہ) کو اس کی ملازمت کے سالوں سے ضرب دی جاتی ہے اور وہ مقدار اس ملازم کی گریجویٹی قرار ہوتی ہے، مثلاً کسی ملازم کی ادارہ چھوڑتے وقت آخری تنخواہ دس ہزار ہےاور اس نے دس سال ادارے میں کام کیا ہے تو اس کے گریجویٹی فنڈ کی رقم ایک لاکھ ہو گی۔ہمارا ادارہ 1990ء سے قائم ہے، یہ ادارہ ایک فرم کے طور پر 2010 ءتک پر ائیویٹ لمیٹڈ کےطور پر جسٹر ڈ ہوئے بغیر کام کرتا رہا، جبکہ جنوری 2010 ءسے اس کو پرائیویٹ لمیٹڈ کے طور پر رجسٹرڈ کروایا گیا، بہردو صورت اس کے مالکان وہی تھے جو پہلے تھے ، جبکہ ملازمین بھی وہی پہلے والے باقی رکھے گئے، البتہ چونکہ کمپنی کے نام میں بھی تبدیلی آگئی تھی (یعنی نام کے ساتھ پرائیویٹ لمیٹڈ ) کا اضافہ ہو گیا تھا اور رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے کمپنی کےحسابات نئے سرے سے شروع کئے جارہے تھے نیز قانونی طور پر یہی تصور کیا جانا تھا کہ یہ کمپنی رجسٹر ڈ کئے جانے کی تاریخ کے وقت سے قائم ہوئی ہے ، اس لئے یہ تصور کیا گیا کہ اب تک جو ملازمین کمپنی کے پاس تھے ان کو فارغ کر دیا گیا ہے اوراب گویا کہ نئے سرے سے ملازمین کی بھرتی ہوئی ہے اگر چہ عملاً ایسا نہیں کیا گیا کہ ملازم کو فارغ کیا گیا ہو اور دوبارہ بھرتی کیا گیا ہو ، اور نہ ہی کسی ملازم کو باضابطہ اس کی اطلاع دی گئی، بلکہ حسابات میں یہ ترتیب قائم کی گئی کہ کمپنی کے رجسٹرڈہونے سے پہلے کا کمپنی اور تمام موجود ملازمین کے فنڈز وغیرہ کا الگ حساب قائم کر کے اس کو کلوز کر دیا گیا جبکہ پر ائیویٹ لمیٹڈ کے طور پر رجسٹر ڈ ہونے کے بعد کا الگ حساب شروع کیا گیا۔اس مذکورہ کاروائی سے یہ نتیجہ نکلا کہ جو ملازم رجسٹر ڈ ہونے سے پہلے سے ملازم تھے ان کی گریجویٹی بھی اس وقت کی تنخواہ کے اعتبار سے بنا کر حساب کلوز کر دیا گیا اور آئندہ سے ان کو نیا ملازم تصور کر کے نئے سرے سے حساب شروع کیاگیا، چنانچہ جو ملازم مثلاً جنوری 2001ء سے ملازم تھا اور جنوری 2010ء کے وقت اس کی تنخواہ مثلاً پانچ ہزار تھی تو اس کی ان نو سالوں کی گر یجو یٹی 45 ہزار بنا کر حساب میں درج کر لی گئی، جبکہ آئندہ کے لئے اس کا نیا حساب شروع کیا گیا، ایساملازم اگر جنوری 2014ء کو فارغ ہو گا تو اس کے تیرہ سال کا حساب کچھ اس طرح بنے گا:
جنوری 2001 ءسے جنوری 2010 ءتک
کل مدت: (9سال)
جنوری 2010 میں ملازم کی تنخواہ: 5000روپے
گریجویٹی: X 9 5000 45000 =
جنوری 2010 سے جنوری 2014 تک کل مدت: (4سال)
جنوری 2014 میں ملازم کی تنخواہ: 10,000 روپے
گریجویٹی: X 4 10,000 40,000 =
کل گریجویٹی : 85,000 = 45,000+40,000
اب ملازم اور کمپنی کے درمیان اختلاف ہے کہ ملازم چاہتا ہے کہ اس کی گریجویٹی کے لئے 9 اور چار سال کا الگ الگ حساب نہیں بننا چاہئے بلکہ اس کی آخری تنخواہ جو کہ دس ہزار ہے کو اس کی کل مدتِ ملازمت جو کہ تیرہ سال ہے کے ساتھ ضرب دینا چاہئے ، چنانچہ اس حساب سے اس کی گریجویٹی ایک لاکھ تیس ہزار ہونی چاہئے، ملازم کا موقف ہے کہ اس کو کمپنی کے پرائیویٹ لمیٹڈ رجسٹر ڈ ہونے اور الگ الگ حساب بنانے کی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی اور وہ اپنے حساب کو سابقہ بھرتی کے مطابق تصور کرتارہا ہے ، اس کا خیال ہے کہ اس کو کمپنی کے رجسٹر ڈ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہی اس نے اس بات کو مد ِّنظر رکھ کر کمپنی میں ملازمت اختیار کی تھی۔کمپنی کا مؤقف ہے کہ ملازم کی گریجویٹی کا حساب اوپر ذکر کئے گئے حساب کے مطابق ہونا چاہئے، اس لئے کہ ملازم کو کمپنی کے پرائیویٹ لمیٹڈ ہونے اور رجسٹر ڈ ہونے کی فی الجملہ اطلاع مل گئی تھی اگر چہ اس کو باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ، نیز جبکہ ملازم کو رکھتے وقت بھی اس سے گریجویٹی سے متعلق کوئی ضابطہ اور معاہدہ طے نہیں ہوا تھا( بلکہ ملازم عرف کی وجہ سےاس کو اپنا حق سمجھتا ہے ) اس لئے کمپنی میں اس تبدیلی کے وقت بھی ملازم کو باضابطہ اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا گیا۔بہر حال مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں آپ سے جواب طلب امر یہ ہے کہ کمپنی اور ملازم میں سے کس کا مؤقف از روئے شرع درست ہے ، اور کیا ملازم کا بیان کیا گیا حق واقعہ اس کا شرعی حق ہے کہ جس کی عدم ادائیگی پر کمپنی (مالکان) پر گناہ ہو ؟
اگر شرعاً ملازم کا مؤقف درست ہے تو جو ملازمین کمپنی کے مؤقف کو بغیر کسی جرح قدح کے تسلیم کر کے اس کےمطابق اپنی گریجویٹی لے کر جاچکے ہیں، کیا ان کو بھی مزید رقم کی ادائیگی کمپنی پر ضروری ہوگی ؟
واضح رہے کہ قانون کمپنی کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کمپنی کے پرائیویٹ لمیٹڈ ہونے کے بعد اور پہلے کا الگ الگ حساب بنائے تاہم کمپنی کو اپنے ملازم کو اس کی اطلاع دینی چاہئے تھی جو نہ دی جاسکی، لیکن اس اطلاع نہ دینے کے باوجودبھی قانون اس سلسلے میں کمپنی پر کوئی گرفت نہیں کر سکتا۔ جلد از جلد جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔
وضاحت : سائل نے بتایا کہ خط کشیدہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ گورنمنٹ کے پاس کمپنی کے رجسٹر ڈ نہ ہونے کی وجہ سے ملازم کے ہماری کمپنی میں ملازمت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں جس کی وجہ سے قانون کے تحت گورنمنٹ کچھ نہیں کہہ سکتی۔
(1) ۔۔۔ سوال میں مذکورہ تفصیل کے مطابق چونکہ گورنمنٹ کے اصول میں الاؤنسز سمیت ملازم کی مکمل تنخواہ کو کل مدت سے ضرب دے کر گر یجو یٹی دینا لازم ہوتا ہے لہٰذا سوال میں مذکورہ مثال کے مطابق کمپنی نےجن ملازمین کو ان کی گریجویٹی بیسک (Basic)تنخواہ کے مطابق ساٹھ ہزار دی ہے ان کو چالیس ہزار روپے کارہ جانے والا فرق کمپنی کے ذمہ ادا کرنا ضروری ہے۔
(2)۔۔۔ سوال میں مذکورہ تفصیل کے مطابق اگر کمپنی رجسٹر ڈ ہونے سے پہلے گریجویٹی کا قانون کمپنی پر لاگونہیں ہواتھا اور ملازم کو رکھتے وقت گریجویٹی کے متعلق کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا تو رجسٹر ڈ ہونے سے پہلے کی گریجویٹی کمپنی کی طرف سے محض تبرع ہے جسے وہ اپنی صوابدید کے مطابق جسے جتنا چاہے دے سکتی ہے، لہٰذااس صورت میں مالکان کمپنی کا مؤقف درست ہے اور ان کا رجسٹری سے پہلے اور بعد کی رقم کا الگ الگ حساب کرنا بھی درست ہے ، اور ایسا کرنے سے وہ گناہگار نہیں ہوں گے۔لیکن اگر گورنمنٹ کے اصل قانون کے مطابق غیر رجسٹرڈ کمپنی پر بھی گریجویٹی دینا لازم ہو تو اس صورت میں کمپنی کے ذمہ رجسٹرڈ ہونے سے پہلے اور بعد کا حساب الگ الگ بنانا درست نہیں کیونکہ یہ گر یجو یٹی ملازم کے لئے لازم ہو چکی ہے اور رہی یہ بات کہ ملازمین کو رجسٹری سے پہلے فارغ کر دیا تھا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ مالکان کمپنی کے محض تصور کر لینے سے " کہ ہم نے رجسٹری سے پہلے تمام ملازمین کو فارغ کردیا تھا اور رجسٹری کے وقت سے دوبارہ بھرتی کیا “، ملازم کے ساتھ کیا گیا پہلا عقدِ اجارہ فسخ نہیں ہوا تھابالخصوص جبکہ نہ ادارہ تبدیل ہوا نہ اس کے مالکان، لہٰذا سابقہ عقدہی قائم رہا کیونکہ عقد ِاجارہ کے فسخ کرنےکے لئے اور نیا عقد کرنے کے لئے جانبین کی رضامندی ضروری ہے، جبکہ صورتِ مسئولہ میں ملازم کا پہلا عقدملازم کی رضامندی سے یا ملازم کی طرف سے کسی کمی کوتاہی کی وجہ سے فسخ نہیں کیا گیا اور اسی طرح نئے عقدکے لئے ملازم کے ساتھ کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا گیا، لہٰذا مذ کورہ صورت میں ملازم کی آخری تنخواہ کو اس کی کل مدتِ ملازمت تیرہ سال سے ضرب دے کر گر یجو یٹی بنانا ضروری ہے، کیونکہ پورے تیرہ سالوں میں ملازم کاپہلا عقد ہی بر قرار تھا۔
عدالتی فیصلے: (216/2)
فاضل فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلے مرزا محمد امین بنام حکومت پاکستان (پی ایل ڈی ۱۹۸۲ء ایف ایس سی (۱۴۳) میں یہی موقف اختیار کیا ہے کہااگر کسی آجر (Employer) کی طرف سے اپنے کسی ملازم کے مرنے کے بعداس کے کسی اہل کانہ کی امداد یا ان کے نقصان کی تلافی کے لئے کوئی رقم دی جائےتو خواہ وہ مرحوم کی خدمات کے پیشِ نظر دی گئی ہو ، لیکن وہ ایک عطیہ ہوتی ہےاور قابل میراث نہیں ہوتی، اس بنیاد پر وہ فیملی پینشن اور ڈیتھ گر یجو یٹی جو ایک ملازم کے اہل خانہ کو اس کی وفات کے بعد دی جاتی ہے اسے محض ایک عطیہ قراردیا گیا اور اسے میراث کی طرح قابل تقسیم قرار نہیں دیا گیا فاضل وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ جو گر یجو یٹی ملازم کی زندگی ہی میں شرائط ملازمت کے تحت اس کا حق بن جاتی ہے ، جس کا وہ اپنی زندگی میں لازماًمطالبہ کر سکتا ہے وہ مرحوم کا ترکہ شمار ہو گی اور میراث کی طرح تقسیم کی جائےگی، جیسا کہ پی ایل ڈی ۱۹۸۹ ء لاہور ۳۴ میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے لیکن وہ ڈ یتھ گر یجو یٹی جو زندگی میں ملازم کا ایسا حق نہیں تھی جس کا وہ لازما ًمطالبہ کرسکے وہ ایک عطیہ ہے اور ملازم کا ترکہ نہیں لہٰذا دینے والے کو حق ہے کہ مرحوم کی فیملی میں سے جس کو چاہے دے ، فاضل وفاقی شرعی عدالت کا یہ موقف ہمارے نزدیک درست ہے۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب
قال الله تعالى:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ في شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلى اللهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخر ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا} [النساء: 59[
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)(76/6)
تُفْسَحُ بِالْقَضَاءِ أَو الرضا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (78/6)
(قوله كمرض العبد) في البزازية: استأجر عبدا للخدمة فمرض العبد، إن كان يعمل دون العمل الأول له خيار الرد، فإن لم يردوتمت المدة عليه الأجر، وإن كان لا يقدر على العمل أصلا لا يجب الأجر وعلى قياس مسألة الرحى يجب أن يقال إذا عمل أقل من نصف عمله له الرد اهـ. وفي الولوالجية: وكذا لو أبق فهو عذر أو كان سارقا؛ لأنها توجب نقصانا في الخدمة اهـ وقيد بمرض العبد، إذ لو مرض الحر المستأجر، وإن كان يعمل بأجرائه فليس بعذر، وإن بنفسه فعذر كما في البزازية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)(77/6)
والحاصل أنه لا يشترط القضاء أو الرضا في خيار الشرط والرؤية.وأما في خيار العيب ففي نحو انهدام الدار كلها يفسخ بغيبة صاحبه بخلاف انهدام الجدار ونحوه كما مر.وأما في غيره من الأعذار فسيأتي أن الأصح أن العذر إن كان ظاهرا ينفرد وإن مشتبها لا ينفرد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (77/6)
وفي الخلاصة: خيار العيب في الإجارة يفارق البيع في أنه ينفرد بالرد بالعيب قبل القبض لا بعده،
وفي الإجارة ينفرد المستأجر بالرد قبل القبض وبعده اهـ ولا تنس ما مر. (قوله يفوت النفع به) والأصل فيه أن العيب إذا حدث بالعين المستأجرة، فإن أثر في المنافع يثبت الخيار للمستأجر كالعبد إذا مرض والدار إذا انهدم بعضها؛ لأن كل جزء من المنفعة كالمعقود عليه، فحدوث عيب قبل القبض يوجب الخيار، وإن لم يؤثر في المنافع فلا كالعبد المستأجر للخدمة إذا ذهبت إحدى عينيه أو سقط شعره، وكالدار إذا سقط منها حائط لا ينتفع به في سكناها؛ لأن العقد ورد على المنفعة دون العين وهذا النقص حصل بالعين دون المنفعة والنقص بغير المعقود عليه لا يثبت الخيار إتقاني. وفي الذخيرة: إذا قلع الآجر شجرة من أشجار الضياع المستأجرة فللمستأجر حق الفسخ إن كانت الشجرة مقصودة