Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اداروں کا (E.O.B.I)سےبچنے کیلئے اپنے ملازمین کی تعداد کم لکھوانا


سوال

گور نمنٹ کے قائم کردہ دو ادارے ہیں جو پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی بہبود کے لئے بنائے گئے ہیں:
1. اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (E.O.B.I)
2. ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹیٹیوشن (S.E.S.S.I)
ان مذکورہ اداروں کے قوانین کے تحت کمپنیز پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کا ریکارڈ ان اداروں کے پاس جمع کرواکررجسٹر کروائیں اور ہر ملازم کی طرف سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ (14000) کا6 فیصد سالانہ ان اداروں کو جمع کروائیں۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ ان اداروں کے پاس رجسٹرڈ ملازم کو (S.E.S.S.I) والے اپنے خرچہ پر طبی سہولیات فراہم کرتےہیں اور جب وہ ملازم ریٹائر ہوتا ہے تو( E.O.B.I) والے اس کی پنشن جاری کرتے ہیں۔
ان دونوں قوانین کو سو فیصد پورا کرنا کمپنیز کے لئے مالی اعتبار سے کافی بوجھ ہوتا ہے کیونکہ ملازمین کی کثرت تعداد کی بناء پر یہ رقم لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے جس کی ادائیگی ادارے کے لئے کافی مشکل ہوتی ہے اس لئے کمپنیز مذ کورہ بالا قوانین سے متعلق دو
صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرتی ہیں:
1) اپنے ملازمین کی تعداد حقیقت سے کم ظاہر کی جاتی ہے اور چند ملازمین کی طرف سے رقم جمع کرا دی جاتی ہے اس صورت میں کمپنی کی بچت ہو جاتی ہے لیکن ملازمین کو یہ سہولت نہیں مل پاتی۔ واضح رہے کہ ملازمین سے عقد کے وقت ان سہولیات کے دینے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا جاتا ، یہ صرف حکومتی پابندی ہے۔
2) ان اداروں کے لوگ جب سالانہ آڈٹ کے لئے آتے ہیں تو اس موقع پر کچھ رقم دے کر آڈٹ رپورٹ بنوالی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اگر ان قوانین پر سو فیصد عمل کر بھی لیا جائے تو پھر بھی ان اداروں کے لوگ سالانہ آڈٹ پر کچھ نا کچھ
ضرور طلب کرتے ہیں اور ان کو دینا ناگزیر ہوتا ہے ورنہ وہ لوگ آڈٹ رپورٹ خراب کر دیتے ہیں۔

آپ سے اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے:
1. کیا کسی ادارے کے لئے مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت اختیا رکرنے کی گنجائش ہے؟
2. مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت اختیا رکرنے میں شرعاً کوئی گناہ تو نہیں ؟
3. کوئی اور حیلہ کی شکل ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں ؟ بلاشبہ ان دونوں قوانین کو سو فیصد پورا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

جواب

حکومت کے جائز قوانین کی پابندی شر عاًلازم اور ضروری ہے ، خاص طور پر وہ قوانین جو ملازموں اورغریب لوگوں کی مدد اور ان کی بہبود کی نیت سے بنائے گئے ہوں، اس لئے کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ حکومت کے مذکورہ قانون کی پابندی کریں، واضح رہے کہ حکومت کا یہ قانون ملازمین کی مدد کے پیش نظر بنایاگیا ہے،کیونکہ بالعموم ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ملازمین کو روز مرہ کے اخراجات کیساتھ طبّی اخراجات برداشت کرنا عام طور پر مشکل ہوتا ہے، نیز ریٹائر منٹ کے بعد کوئی ذریعہ آمدنی باقی نہ رہنے کی وجہ سے بعض اوقات بڑھاپے میں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے کمپنیوں پر لازم ہے کہ بلا وجہ اس میں کوتاہی نہ کریں، بالخصوص جبکہ آپ کو جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بھی کام لینا پڑتا ہو۔

لقول الله تبارك وتعالى
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تأويلا) [النساء: 59[
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب السير ، فصل في بيان ما يندب إليه الإمام ط دار الكتب العلمية (٧/ ٩٩)
قال - عليه الصلاة والسلام - اسمعوا وأطيعوا ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع ما حكم فيكم بكتاب الله - تعالى ولأنه نائب الإمام، وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم معصية فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام : لا طاعة لمخلوق في معصيةالخالق» ولو أمرهم بشيء لا يدرون أينتفعون به أم لا، فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية؛ لأن اتباع الإمام في محل الاجتهاد واجب، كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد والله تعالى - عز شأنه - أعلم. والله تعالى أعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1856/23 المصباح : MDX:020
31 0