کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:
زید جو کہ کاروبار کا مالک ہے اس نے خالد کو کاروبار میں شریک کرنے کا معاہدہ اس طرح کیا ہے کہ خالد کو کاروبار میں ایک مخصوص عہدہ(مثلا منیجر ) بنایا جائے گا، جس کی اس کو تنخواہ دی جائے گی، نیز خالد کو کاروبار میں مخصوص فیصدی تناسب مثلاً پانچ فیصد نفع بھی دیا جائےگا۔ تاہم چونکہ خالد اگر چہ باصلاحیت ہے اور مذکورہ عہد ہ کا اہل بھی ہے ، لیکن اس کو زید کے کاروبار کی پوری سمجھ نہیں ہے اور نہ ہی سرمایہ ہے جبکہ زید خالد کو ایک عرصہ تک کارو بار سکھائے گا اس دوران تنخواہ بھی دے گا اور اس کے بعد نفع میں بھی شریک کرے گا اس لئے زیدنے شروع ہی میں خالد کو درج ذیل شرائط کے ذریعے کچھ باتوں کا پابند بنایا ہے:
1. خالد اس معاہدۂ شرکت کے دوران کسی کو بھی اس قسم کے کاروبار میں یا کسی بھی قسم کے کاروبار میں رہنمائی یا معاونت نہیں کرےگا، اگر کرے گا تو اس سے اس کو جو نفع حاصل ہو گا وہ بھی مذکورہ تناسب سے تقسیم ہو گا یعنی خالد کو پانچ فیصد اور زید کو 95 فیصد۔
2. خالد اس معاہدہ کے دوران اور بعد میں بھی تا عمر اس نوعیت کا کاروبار نہیں کرے گا نہ ذاتی حیثیت میں اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کی رہنمائی، معاونت یا مشاورت کرے گا۔
جواب طلب امور یہ ہیں:
1. کیا معاہدے کی مذکورہ صورت جائز ہے، اور یہ شرکت کی کونسی قسم کہلائے گی ؟ جبکہ اس میں کاروبار کا مالک بھی کام کرتا ہے۔
2. کیازید، خالد پر کاروبار کے راز افشاء نہ ہونے کے خوف سے مذکورہ بالا پابندیاں عائد کر سکتا ہے؟
3. کیا خالد پر ان پابندیوں کا التزام کرنا ضروری ہے؟
(1)۔۔۔ سوال میں زید اور خالد کے درمیان ذکر کردہ معاملہ فقہی لحاظ سے شرکت نہیں ہے، بلکہ ”اجارہ“ہے۔ اور اس میں مینیجر کی تنخواہ متعین رقم اور نفع کا پانچ فیصد طے کی گئی ہے، اس صورت میں اگر جھگڑے کا اندیشہ نہ ہو تو اس طرح تنخواہ طے کرنے کی گنجائش ہے۔
(2،3)۔۔۔مذکورہ کاروبار کی وہ معلومات جن کا دوسروں کے سامنے ذکر کرنے میں کاروبار کو کسی قسم کے نقصان کاخطرہ لاحق ہو، اُن کے متعلق معاہدہ نامہ میں یہ شرط رکھی جاسکتی ہے، اور ملازم اس پر عمل کا پابند ہو گا۔ البتہ معاہدۂ ملازمت ختم ہونے کے بعد تاحیات اس نوعیت کا کاروبار ملازمت نہ کرنے کا پابند بنانا اور عقد ِملازمت میں اس کی شرط لگانا درست نہیں، کیونکہ عقد ِاجارہ ختم ہو جانے کے بعد مالک کو ملازم پر شرعاًیہ ولایت حاصل نہیں ہے، اس لئے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے، اور ملازمت چھوڑنے کے بعد ملازم کو اختیار ہو گا کہ وہ اس نوعیت کا کاروبار کرنا چاہے یا جس کمپنی /ادارہ میں ملازمت کرنا چاہے کر سکتا ہے، مگر اس پر شرعا ًلازم ہو گا کہ جان بوجھ کر کوئی ایسا کام نہ کرے جس سےسابقہ کمپنی /کار و بار کو نقصان پہنچے، اور اس بات کا ملازم سے وعدہ لیا جاسکتا ہے۔
(1)
الدر المختار (46/6)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها)كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة.
حاشية ابن عابدين - (47/6)
(و كشرط طعام عبد وعلف دابة) في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز . وقال الفقيه أبو الليث: في الدابةتأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ . قال الحموي: أي فيصح اشتراطه واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلاشرط ومنه بشرط اهـ. أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل.