گذشتہ دنوں ہم نے آپ سے اپنے والد صاحب کی تقسیم میراث سے متعلق ایک فتویٰ (1478 /76) حاصل کیا تھا،الحمدللہ ہم فتوے میں بتائے گئے اصول کے مطابق اپنے والد صاحب کی میراث کو تقسیم کر رہے ہیں ، اس میراث میں
بنیادی چیز والد صاحب کی چھوڑی ہوئی کمپنی ہے، اس کی تقسیم سے متعلق چند سوالات کا جواب آپ سے مطلوب ہے امیدہےکہ پہلے کی طرح رہنمائی فرمائیں گے :
1. تقسیم کے وقت جو مال فروخت کے لئے تیار ہو چکا ہے یا ابھی تیاری کے مراحل میں ہے ان کی کونسی قیمت لی جائے گئی اصل لاگت یا مارکیٹ ویلیو ( قیمت فروخت)؟
2. اگر سب شر کاء اپنا حصہ لینے کی بجائے کمپنی ہی میں اپنے حصے کے بقدر شراکت باقی رکھنا چاہیں، تو اس شراکت کا
کیا حکم ہے ؟ اور اس شرکت پر کونسی شرکت کے احکامات لاگو ہونگے(شرکت الملک یا شرکت العقد و غیره)؟ تا کہ آئندہ کے لئے اس شرکت کے احکامات کی رعایت کی جاسکے۔
3. شراکت کے لئے کمپنی کی مارکیٹ ویلیو لگانی ہو گی یا بیلنس شیٹ کے مطابق ویلیو کا اعتبار کرنا کافی ہو گا؟ واضح رہے کہ کمپنی کی بیلنس شیٹ میں کمپنی کی حیثیت اکاؤنٹنگ کے اصولوں کے مطابق Depreciation(گھٹائی) نکالنے کے بعد ظاہر کی گئی ہوتی ہے۔
4. کمپنی کی ویلیو متعین کر لینے کے بعد اس کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہو گا؟ کیا اس کے بقدر شیئرز کو تقسیم کر دیا جائےاورآئندہ ہر سال نفع دیا جائے ؟ یا ہر ایک کو اس کے حصہ کے بقدر رقم دینا ضروری ہے اور اس کے بعد دوبارہ شراکت کےلئے شامل کر دیا جائے؟
5. اگر سب شرکاء اس بات پر راضی ہوں کہ شراکت قائم ہونے کے بعد سالانہ نفع کو کمپنی کی بیلنس شیٹ کےمطابق تقسیم کیا جایا کرے گا، تا کہ نفع کی تقسیم اور کمپنی کے انکم ٹیکس گوشوارہ کے لئے الگ الگ حساب نہ بناناپڑے ، البتہ جب کبھی شراکت ختم کرنی ہو تو اس وقت اصل ویلیو کے اعتبار سے حساب کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ ( بیلنس شیٹ میں نفع یا نقصان اکاؤنٹنگ کے اصولوں کے مطابق Depreciation(گھسائی) نکالنےکے بعد ظاہر کیا جاتا ہے۔
6. کیا مذکورہ شرکت میں بعض شرکاء جو کہ کام کرتے ہیں ان کے نفع کا تناسب دوسرے شر کاء جو کہ سلیپنگ پارٹنرہیں سے زیادہ رکھا جا سکتا ہے؟جبکہ کام کرنے والے شرکاء کام کرنے کی تنخواہ بھی لیتے ہیں۔
7. مذکوره شرکت قائم ہونے کے بعد کیا کام کرنے والے شر کاء کو اپنے کام کی تنخواہ لینا جائز ہو گا؟یادر ہے کہ مذکورہ کمپنی کی حیثیت اب ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کی ہے۔ جلد جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔
(1)۔۔۔اس کمپنی کے ہر ہر جزء میں تمام ورثاء اپنے اپنے حصوں کے بقدر شریک ہیں، لہذا اس کو تقسیم کرنے کا مطلب ایک شریک کا اپنے بعض حصوں کے بدلے دوسرے شرکاء کے بعض حصے خریدنا ہے، اسلئے یہ تقسیم شرعاًبیع (خرید و فروخت) کے حکم میں ہے اور اس میں تمام احکام بیع کے جاری ہوں گے لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ کمپنی کے اثاثے صرف جامد (Fixed Assets)شکل میں ہوں یا جامد اور سیال (Liquid Assets)دونوں سے مرکب ہوں تو اس صورت میں اصل لاگت مارکیٹ ویلیو یاباہمی رضامندی سے جو بھی قیمت طے کرلی جائے، جائز ہے، البتہ جامد اور سیال اثاثوں کے مرکب ہونے کی صورت میں اتنی بات ضروری ہے کہ اگر کوئی وارث صرف نقدی لے کر اپنے مرکب حصے کو چھوڑ رہا ہو تو اس کے اس مرکب حصے میں موجود نقدی اس کو حاصل ہونے والی نقدی سے کم ہو اور اس کو ملنے والی نقدی اُس سے زیادہ ہو ۔(1)
(2،4)۔۔۔اگر سب شرکاء اپنا حصہ لینے کے بجائے کمپنی میں شراکت قائم رکھ کر کاروبار کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر شرکتِ عقد کے احکام جاری ہوں گے اور اگرچہ حنفی مسلک کے مطابق "شرکت بالعروض “درست نہیں ہوتی، لیکن چونکہ صورتِ مسئولہ میں یہ کمپنی شرکاء کو ان کے والد سے ورثہ ملی ہے، اسلئے ان کے درمیان شرکۃ الملک متحقق ہو گئی اور "شرکۃ الملک “کے تحقق کے بعد "شرکۃ العقد “عروض میں بھی درست ہے۔ (ماخذہ فتاوی عثمانی: 3/65)(2)
(3)۔۔۔واضح رہے کہ "شرکت بالعروض میں حضرات مالکیہ کے مذہب کے مطابق شرکاء کے سرمایہ اور ان کے حصص کے تعین کے لئے اس دن کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے قیمت طے کی جائیگی جس دن شرکت وجود میں آئی ہو ۔ تاہم صورت مسئولہ میں چونکہ پہلے سے شرکت ملک قائم ہوچکی ہے اورشریک کا حصہ بھی متعین ہے اسلئے دونوں میں سے جو قیمت طے کر لی جائے، جائز ہے۔
(5)۔۔۔باہمی رضامندی سے بیلنس شیٹ کے مطابق نفع تقسیم کرنا بھی جائز ہے۔ (ماخذہ شرکت ومضاربت عصر حاضر میں:۲۶۷) البتہ شراکت کے ختم ہونے پر حقیقی مالیت کے اعتبار سے حساب کرنالازم ہے جیسا کہ سوال میں بھی تحریر ہے۔
(6)۔۔۔باہمی دلی رضامندی سے ورکنگ پاٹنر کے لئے زیادہ نفع طے کرنا جائز ہے۔اسی طرح کام کرنے والے شریک کے لئے ایک معین تنخواہ طے کرنا کئی علماء کے نزدیک جائز ہے اس لئے اس کی بھی گنجائش ہے، البتہ ورکنگ پارٹنر کے لئے زیادہ نفع طے کر دینا زیادہ بہتر اور کتب فقہ کے مطابق ہے۔(ماخذہ تبویب: 799/29)۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(1)
الدر المختار - (5 / 642)
(أخرجت الورثة أحدهم عن التركة وهي (عرض أو ) هي عقار بمال) أعطاه له(أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر)لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزاعن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلاليةوجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وحينئذ فتجري فيه) أحكام البيع كالشفعة
والرد بعيب وخيار رؤية وشرط ويفسده جهالة البدل المصالح عليه لاجهالة) المصالح عنه.
الفتاوى الهندية - (5 / 203)
أما تفسيرها فهي عبارة عن الإفراز وتميز بعض الأنصباء عن البعض وأنها لا تنفك عن المبادلة لأن ما من جزء معين إلا وهو مشتمل على نصيبين فكان ما يقبضه كل واحد منهما نصفه ملكه ونصفه ملك صاحب صار له بإزاء ما تركه على صاحبه فصار عوضا عما ترك من نصيبه في يد صاحبه ... ومعنى المبادلة في غير ذوات الأمثال أرجح وأظهر فيكون مبادلة حقيقة وحكما.
(2)
الفتاوى الهندية - (2 / 307)
والحيلة في جواز الشركة في العروض وكل ما يتعين بالتعيين أن يبيع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال صاحبه حتى يصير مال كل واحد منهما نصفين وتحصل شركة ملك بينهما ثم يعقدان بعد ذلك عقد الشركة فيجوز بلا خلاف كذا في البدائع