چند مسائل میں آپ کی رہنمائی درکارہے:
1. ہمارا قسطوں پر خرید و فروخت کا کاروبار ہے اور ہم موٹر سائیکل کی ادھار خرید و فروخت کرتے ہیں، ہمارے اس کاروبار کےبارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سودی کاروبار ہے اس لیے یہ کاروبار جائز نہیں براہ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کےبارے میں آگاہ فرمائیں۔
2. قسطوں پر فروخت کی گئی چیز کی قیمت اگر خریدار جلد ادا کر دے اور مقررہ قیمت میں ڈسکاؤنٹ کا مطالبہ کرے تو کیا اس کو جلدادائیگی پر ڈسکاؤنٹ دینا جائز ہے ؟
3. ہمارا چونکہ تقریباً کام ادھار پر ہے اور اس میں بعض دفعہ خریدار قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اس معاملے کو قابو کرنے کے لیے مارکیٹ میں مختلف انداز میں خریدار پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جس کی چند صورتیں ذیل میں درج ہیں:
1) تاخیر سے ادائیگی پر جرمانہ : مثلاً موٹر سائیکل ادھار پر فروخت کیا، یکم جنوری کو پیسے دینے تھے لیکن اس نے یکم جنوری کے بجائے 30 مارچ کو دیئے تو کچھ لوگ اس پر روزانہ یاماہانہ کی بنیاد پر جرمانہ وصول کرتے ہیں ، کیا تاخیر کی صورت میں جرمانہ عائد کرنا شر عاً جائز ہے اور اگر جرمانہ عائد نہ کریں تو ہمارے پیسے پھنس جاتے ہیں اور پھر اس کی وصولی بہت مشکل ہو جاتی ہے، ایسی صورت میں کیا صورت اختیار کی جائے کہ ہمیں بھی نقصان نہ ہو ؟
2) ہم نے اپنی رسیدوں کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ اگر طے شدہ وقت کے مطابق پیسے نہ دیے تو ہر روز 500 روپیہ یا ہزار روپیہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جب دکاندار کو کہا جائے کہ یہ الفاظ مناسب نہیں ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ صرف ڈرانے کے لیے لکھے ہیں کچھ لوگ واقعی صرف ڈراتے ہیں جرمانہ وصول نہیں کرتے لیکن کچھ لوگ واقعی جرمانہ بھی وصول کرتے ہیں۔ کیا محض ڈرانے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ؟
4. کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض خریدار جنہوں نے قسطوں پر یا نقد موٹر سائیکل خریدا ہوتا ہے، مختلف وجوہات کی وجہ سےتھوڑے دن (دو دن ، تین دن یا ہفتے) بعد واپس کرنے آجاتے ہیں، کیا اس خریدار سے جو کسی مجبوری کی وجہ سے واپس کر رہاہے موٹر سائیکل واپس لینا دکان دار پر شرعاً ضروری ہے؟
5. واپس لینے کی صورت میں بعض دکان دار کچھ رقم کاٹ کر واپس لے لیتے ہیں کیا اس طرح رقم کا ٹنا درست ہے؟ کیونکہ موٹرسائیکل کے استعمال کی وجہ سے اس کی قیمت گر بھی چکی ہوتی ہے۔
6. ہمارے اس کاروبار میں کچھ معاملات کمیشن کے حوالے سے بھی پیش آتے ہیں جیسے:
1) ایک بندہ اپنی موٹر سائیکل بیچنے کیلئے آتا ہے تو ہم اس کو کہتے ہیں کہ تمہیں کتنے میں بیچنی ہے ؟ بالفرض وہ کہتا ہے کہ پچاس ہزارمیں، تو ہم اس سے کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہم پچاس میں بکوا دیں گے اور او پر جو نفع ہو اتو وہ ہمارا ہو گا۔ اور بعض دفعہ دکان دار کی جانب سے اضافی رقم کی وصولی کی وضاحت بھی نہیں ہوتی بلکہ پچاس سے اوپر جتنے کی بکتی ہے وہ خودر رکھ لیتا ہے۔ کیا یہ صورت شرعاً جائز ہے ؟ اگر نہیں تو اس کا جائز متبادل کیا ہو گا؟
2) عام طور پر ہم نے دوکانوں پر آویزاں کیا ہوتا ہےیکطرفہ کمیشن 1000 روپے" (یعنی بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں سے ہزار کمیشن لیا جائے گا)شاگرد کی مٹھائی 500 روپے ( یہ پیسے خریدار سے مٹھائی کے عنوان سے لے دوکان کے کام کرنے والے لڑکے کو دیےجاتے ہیں، اس کی اس کے علاوہ تنخواہ نہیں ہوتی۔
کیا کمیشن کی مذکورہ صورتیں جائز ہیں ؟
7. ایک خریدار کو موٹر سائیکل کی ضرورت نہیں ہوتی اسے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ دکاندار سے کہتا ہے کہ مجھے پیسے دےدو تو دکاندار اس سے کہتا ہے میں نے پیسے نہیں دینے یہ موٹر سائیکل میں ادھار میں ایک لاکھ روپے کا دے دیتا ہوں اور اس کومارکیٹ میں سیل کروا دیتا ہوں۔
1) اور پھر اپنے ہی بندے کو بلا کر وہ موٹر سائیکل ایک لاکھ روپے کا 70 ہزار میں رکھ لیتا ہے کیا یہ جائز ہے؟
2) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو نہیں بلکہ سچ مچ مارکیٹ میں سے کسی شوروم والے کو بلا کر تھوڑی کم قیمت پر سیل کروا دیتا ہے کیا یہ جائز ہے؟
(1)۔۔۔ قسطوں پر ادھار خرید و فروخت درج ذیل شرائط کی رعایت کے ساتھ جائز ہے۔ ان شرائط کی رعایت کےساتھ یہ خرید و فروخت سودی معاملہ نہیں ہو گا۔ وہ شرائط یہ ہیں:
(الف): جس مجلس میں خرید و فروخت کا معاملہ کیا جارہا ہے، اس میں نقد یا ادھار میں سے کوئی ایک قیمت واضح طور پر متعین کی جائے۔
(ب): معاملہ کے وقت قیمت کی ادائیگی کی کل مدّت، قسطوں کی مقدار اور ادائیگی کے اوقات طے ہوں۔
(ج): ایک قیمت طے ہونے کے بعد اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے، خاص طور پر بعد میں مدت میں اضافہ یا ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے نہ قیمت میں اضافہ کیا جائے، اور نہ جرمانہ کے طور پر زائد رقم وصول کی جائے۔البتہ اگر مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک شرط کی بھی خلاف ورزی کی گئی تو یہ معاملہ شرعاًناجائز ہو گا۔ (ماخذہ تبویب: 1752/50)
(2)۔۔۔خریدار کیلئے طے شدہ مدت سے پہلے ادائیگی پر قیمت میں کمی (ڈسکاؤنٹ) طے کرنا ائمہ اربعہ ( حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) کے مذہب کی رُو سے ناجائز ہے کیونکہ بعض احادیث مبارکہ میں اسے ربا یعنی سود قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔
(3)۔۔۔ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اضافی رقم وصول کرنا مالی جرمانہ ہونے کی وجہ سے شرعاًنا جائز ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔ نیز رسید پر صرف ڈرانے کیلئے اضافی رقم لازم ہونے کی تحریر بھی درست نہیں، خواہ اضافی رقم وصول کی جائے یانہ کی جائے۔
البتہ بروقت ادائیگی کے اطمینان کیلئے تعزیر مالی یعنی مالی جرمانہ کے جائز متبادل کے طور پر خرید اروں کی پیشگی اجازت اور رضامندی کے ساتھ" التزام بالتصدق" کی صورت اختیار کی جاسکتی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ:خریدار سے یہ وعدہ لیا جاسکتا ہے کہ اگر انہوں نے بروقت ادائیگی میں تاخیر کی تو وہ اتنی رقم صدقہ کرنے کاپابند ہو گا، اس طرح اس وعدہ سے اس پر صدقہ کرنالازم ہو جائے گا۔ نیز اس وعدہ میں یہ بات بھی شامل ہو گی کہ اس پر لازم ہونے والے صدقہ کی ادائیگی کیلئے دکاندار اس کی ادا کردہ رقم سے اس کے وکیل کی حیثیت سے صدقہ کرنےکا مجاز ہو گا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ کوئی شخص نذر یعنی منت مان کر غیر لازم عبادت کو خود پر لازم کر لیتا ہے تووہ عبادت شر عاً اس پر لازم ہو جاتی ہے۔ خریدار پر صدقہ لازم ہونے کے بعد دکاندار اس کی طرف سے دیئے ہوئےاختیار کو استعمال کر کے بطور وکیل اس کی طرف سے یہ رقم صدقہ کرنے کا مجاز ہو گا۔
تا ہم واضح رہے کہ یہ صدقہ خریدار کی طرف سے ہو گا، دکاندار کی طرف سے نہیں ہو گا، دکاندار صرف صدقہ کرنے والوں کا وکیل ہو گا، لیکن وہ اس صدقہ سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اور صدقہ کی رقم کو اپنی آمدنی کا حصہ بھی نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ قرض یعنی خریدار پر واجب الادءرقم پر حاصل شدہ نفع ہو گا جو کہ سود ہونےکی وجہ سے شرعا ًنا جائز اور حرام ہے۔
(4)۔۔۔ضروری نہیں۔ البتہ مناسب اور بہتر ہے۔
(5)۔۔۔اگر استعمال کی وجہ سے قیمت میں کمی ہو چکی ہو تو باہمی رضامندی سے کم قیمت میں واپسی ہو سکتی ہے۔
(6)۔۔۔مذکورہ صورت میں اگر کمیشن کی رقم بالکل بھی طے نہ ہو، بلکہ خریدار کی مطلوبہ قیمت مثلاً پچاس ہزار روپےسے زائد ملنے والی اضافی رقم ہی کو کمیشن قرار دیا گیا ہو تو خریدار کی مطلوبہ قیمت سے اوپر ملنے والی اضافی رقم کا کمیشن ہو نا فقہاء احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کمیشن کی رقم متعین نہیں ہے۔ لہذا یہ طریقہ اختیار کرناچاہئے کہ کمیشن کے طور پر کچھ رقم متعین کرلی جائے، خواہ وہ رقم بالکل تھوڑی ہو مثلاً ایک سوروپے مگر متعین اورطے شدہ ہو اور پھر بطور ترغیب بروکر سے کہا جائے کہ جب موٹر سائیکل فروخت ہو جائے تو مطلوبہ قیمت مثلاً پچاس ہزار روپے سے زائد جور قم ملے وہ ہماری طرف سے تمہارے لئے ہدیہ یا انعام ہوگا۔
البتہ اگر کسی نے کمیشن کی کوئی بھی رقم طے کئے بغیر معاملہ کر لیا تو چونکہ یہ بعض فقہاء کرام مثلاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے، لہذا اس کے نفع کو نا جائز نہیں کہا جائے گا۔ (ماخذہ تبویب:2346/6)
تاہم یہ واضح رہے کہ اس معاملہ کا خریدار کو واضح طور پر معلوم ہونا اور اس کی رضامندی سے ہوناضروری ہے ، اسے بتائے بغیر اور اس کی رضامندی کے بغیر اضافی رقم رکھ لینا درست نہیں۔
نیز شاگرد کی مٹھائی کے عنوان سے لئے جانے والی رقم اگر متعین ہے مثلاً پانچ سوروپے ، اور فریقین اس کی ادائیگی پر رضامند ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔
(7)۔۔۔پہلی صورت جائز نہیں، دوسری صورت جائز ہے جبکہ اس میں موٹر سائیکل واپس دکاندار کے پاس نہ آئے۔
(1،2)
السنن الكبرى للبيهقي (47/6)
عن المقداد بن الأسود قال أسلفت رجلا مائة دينار، ثم خرج سهمي في بعث بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: عجل لي تسعين دينارا وأحط عشرة دنانير فقال نعم فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:أكلت ربا یا مقداد، وأطعمته".
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (25)
إسقاط بعض الدين مقابل التعجيل ومما يتعامل به بعض التجار في الدين المؤجلةأنهم يسقطون حصة من الدين بشرط أن يعجل المدين الباقي، مثل أن يكون لزيدعلى عمرو ألف، فيقول زيد عجل لي تسعمائة وأنا أضع عنك مائة، وإن هذه المعاملة معروفة في الفقه الإسلامي باسم "ضع وتعجل".
وقد اختلف الفقهاء في حكمها، فذهب عبد الله بن عباس رضي الله عنه من الصحابة وإبراهيم النخعي من التابعين وزفر بن الهذيل من الحنفية، وأبو ثور من الشافعية إلى جوازه وروي عن عبد الله بن عمر وزيد بن ثابت من الصحابة رضي الله عنهم وعن محمد بن سيرين والحسن البصري، وابن المسيب، والحكم بن عتيبة، والشعبي رحمهم الله من التابعين عدم جواز ذلك، وهو المروي عن الأئمة الأربعة..... ورجع جمهور الفقهاء جانب الحرمة، لأن زيادة الدين في مقابلة التأجيل رباصراح، فكذلك الحط من الدين بإزاء التعجيل في معناه. ... وذكر شمس الأئمةالسرخسي رحمه الله هذه القصة واستدل بها على أنه لا ربا بين المسلم والحربي، قال رحمه الله تعالى: ولما أجلي بين النضير قالوا إن لنا ديونا على الناس، فقال: ضعواوتعجلوا، ومعلوم أن مثل هذه المعاملة لا يجوز بين المسلمين، فإن من كان له على غيره دين إلى أجل، فوضع عنه بعضه بشرط أن يعجل بعضه لم يجز، كره ذلك عمر، وزيد بن ثابت، وابن عمر (رضي الله عنهم) (ذ). ... ومن هنا ذهب جمهورالعلماء إلى القول بتحريم "ضع وتعجل".
(3)
تحرير الكلام في مسائل الالتزام
أما إذا التزم المدعى عليه للمدعى أنّه إن لم يوفه حقه في وقت كذا وكذا فعليه كذاكذا فهذا لا يختلف في بطلانه لأنه صريح الرّبا ... إلى قوله: وأما إذا التزم أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا فعليه كذا لفلان أو صدقة للمساكين فهذا هو محل الخلاف المعقود له هذا الباب، فالمشهور أنّه لا يقضى به كما تقدم، وقال ابن دينار: یقضی به. بحوالہ اسلام اور جدید معیشت و تجارت( ص: ۱۷۲ تا ۱۷۸)
(4)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (306/5)
وفي الحديث: من أقال نادما أقال الله عثرته يوم القيامة».
(5)
الفتاوى الهندية (156/3)
وإن دخله عيب تصح الإقالة بخمسمائة ويصير المحطوط بإزاء النقصان.
(7)
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (273/5)
مطلب في بيع العينة: (قوله في بيع العينة اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول من لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرةويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرةولصاحب الثوب عليه اثنا عشر ،درهما كذا في المحيط، وعن أبي يوسف العينةجائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام -إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم قال في الفتح:ولا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصا.