کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ!
ریکروٹمنٹ (recruitment) کے نام سے ایک ایجنسی ہے، جس کا کام کمپنیوں اور اداروں کو ملازمین فراہم کرنا ہوتا ہے، کمپنیوں اور اداروں کو جب ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ریکروٹمنٹ ایجنسی سے رابطہ کرتے ہیں، ملازمت کےامید وار لوگ ریکروٹمنٹ ایجنسی کے پاس اپنی "سی وی" ( ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے بیان پر مشتمل خلاصہ، جو کسی جگہ ملازمت کے حصول کے لئے جمع کیا جاتا ہے) جمع کرتے ہیں، تاکہ جس کمپنی اور ادارے کو جن صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت ہو اس کو وہی ملازمین فراہم کئے جائیں جو مطلوبہ صلاحیت کے حامل ہوں، کسی کمپنی یا ادارے کو ملازم فراہم کرنےپر ریکروٹمنٹ ایجنسی اس کمپنی اور ادارے سے اس پر متعینہ اجرت لیتی ہے، کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ریکروٹمنٹ ایجنسی ملازم فراہم کر دیتی ہے، لیکن وہ ملازم کسی وجہ سے بعد میں کمپنی چھوڑ کر چلا جاتا ہے، تو وہ کمپنی یا ادارہ ریکروٹمنٹ ایجنسی سے ملازم کے چلے جانے پر جرمانہ مانگتی ہے ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریکروٹمنٹ ایجنسی ملازمین طلب کرنے والی کمپنی اور ادارے کے پاس چند" سی ویاں" بھیج دیتی ہے، لیکن کمپنی اور ادارہ ان "سی ویوں" کے افراد کو اپنے ہاں ملازمت پر رکھنے کے لئے اس وقت رضامند نہیں ہوتا، لیکن بعد میں انہیں افراد میں سے کسی کو ملازم رکھ لیتی ہے، جبکہ ریکروٹمنٹ ایجنسی کے جانب سے یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ یہ کمپنی اور ادارہ ان افراد میں سے کسی کو بھی بعد میں چھ ماہ / ایک سال کے دورانیے میں اپنے ہاں ملازم نہیں رکھے گا، اگر رکھا تو اسے ریکروٹمنٹ ایجنسی کو جرمانہ / فیس ادا کرنی پڑے گی (جو وہ ایک ملازم فراہم کرنے پر وصول کرتی ہے)
حل طلب امور مندرجہ ذیل ہیں:
(1) ۔۔۔ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کیا اس کمپنی یا ادارے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ملازم کے چلے جانے پر ملازم فراہم کرنے والے ادارے( ریکروٹمنٹ ایجنسی) سے جرمانہ وصول کرے؟ اگر نہیں، تو اگر کسی کمپنی یا ادارے نے اس طور پر جرمانہ وصول کر لیا ہو تو اس کاریکروٹمنٹ ایجنسی کو واپس کرناضروری ہے یا نہیں؟
(2) ۔۔۔ ریکروٹمنٹ ایجنسی کی عائد کردہ شرط کا شرعا ًکیا حکم ہے؟ بعد میں ان افراد میں سے کسی کو اپنے ہاں ملازم رکھنے پر ریکروٹمنٹ ایجنسی کا اس کمپنی اور ادارے سے جرمانہ / فیس وصول کرنا کیسا ہے؟ اور اگر ریکروٹمنٹ ایجنسی نے اس طور پر کسی کمپنی یا ادارے سے جرمانہ / فیس وصول کی ہو تو اس کا واپس کرناضروری ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں ریکروٹمنٹ ایجنسی، کمپنی یا ادارے اور ملازم کے درمیان دلال کی حیثیت رکھتی ہے، کمپنی کو ملازم فراہم کرنے کے بعد چو نکہ وہ اپنا مفوّضہ کام سر انجام دے چکی ہے، لہذاوہ طے شدہ اجرت کی مستحق ہو جاتی ہے، اس کے بعد ملازم کےکمپنی چھوڑ کر چلے جانے کی وجہ سے ان ( ریکروٹمنٹ ایجنسی) پر جرمانہ عائد کرنا ( یعنی دی گئی اجرت کو واپس لینا)، یا اس کا متبادل دوسرا ملازم بغیر اجرت دینے کی شرط لگانا شرعا ًجائز نہیں ہے، بلکہ دوسرےملازم ایجنسی سے لینے کی اُجرت الگ سے ادا کرنی پڑےگی، اور جرمانہ چونکہ تعزیرِ مالی ہے ، ناجائز اور قابل واپسی ہے۔
مذکورہ ایجنسی کی طرف سے بھیجے گئے افراد میں سے کسی کو اگر اسی وقت منتخب کر لیا گیا، تو معاہدے کے مطابق ایجنسی اُجرت کی مستحق ہو گی، البتہ ان کا یہ شرط لگانا کہ ان" سی ویو ں "کے حامل افراد کو چھ ماہ یا ایک سال کے دوران اپنے ہاں ملازم رکھا تو ہمیں اس کی فیس (اُجرت) ادا کریں گے، یہ چونکہ نفس ِعقد ہی میں داخل ہے اور مقتضائے عقد کے خلاف ہے لہذا یہ شرط مفسدِ عقد ہو گی۔البتہ ایسی صور تحال میں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے وقت معیار کے مطابق ہونے کے باوجود بھی وہ کمپنی فیس (اُجرت) سے بچنے کے لئے اس وقت ملازم کو اپنے پاس نہ رکھے اس ارادے کے ساتھ کہ بعد میں اپنے طور پر اس کو بلا کر ملازم رکھ لیں گے، تو یہ ایک قسم کا دھوکہ اور خیانت ہے ، اور اس بد دیانتی کی وجہ سے وہ ( کمپنی والے) گناہگار ہوں گے۔
شرح المجلة (لسلیم رستم باز) كتاب الإجارة( 1309 ) ط: دار الكتب بيروت
(المادة: 579) لوخرج مستحق بعد أخذ الدلال اجرته واخذ المبيع اوردالمبيع بعيب لاتسترد اجرةالدلال وكذالوتقايلا البيع او فسخاه بسبب من الأسباب لان الأجرة عوض مقابل بالعمل وقد تم العمل فلا يحق الرجوع على الدلال ...... وكذا صاحب الدار اذاهدم داره لا يرجع على البنا بشئ.
وفیہ ایضا
(577) ان دور دلال مالا ولم يبعه وبعد ذلك باعه صاحب المال فليس للدلال اخذ الأجرة، وان باعه دلال اخر فليس للأول شئ والأجرة للثاني.
التنوير مع الدر: كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة( 977)ط: رشيدية
(تفسد الاجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكلما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالةمأجور أو أجرة أو مدة أو عمل.
الفتاوي الهندية: كتاب الإجارة، الفصل الأول فيما يفسد العقد فيه( 7443) ط: رشيدية
الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل وقد يكون الجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة وقد يكون الجهالة البدل وقد يكون بشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد.
وفي الشامية: ( كتاب الحدود ، مطلب في التعزير بأخذ المال( 698 ) ط: رشيدية
إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي .