کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
ملازمین کے اچانک چھوڑ جانے کی وجہ سے اداروں کو کئی قسم کی تکلیف کا سامنا کر نا پڑتا ہے نیز بسا اوقات مالی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، اسی وجہ سے عموماً اداروں میں ضابطہ بنایا جاتا ہے کہ ملازم اگر ایک ماہ کا نوٹس دیے بغیر چھوڑ گیا تو اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹی جائے گی، ہمارے ادارے میں بھی عملاًاسی رائج صورت پر عمل کیا جاتا تھا، تاہم ملازم سے اس سلسلے میں کوئی معاہدہ سائن نہیں کروایا گیا تھا، چنانچہ اس صورت کے مطابق ایک ملازم کی جب نوٹس دیے بغیر چھوڑ جانے پر تنخواہ کاٹی گئی تو اس کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا کہ چونکہ اس کے ساتھ اس سلسلے میں پہلے سے کوئی بات سے نہیں تھی ، اس لئے اس کی تنخواہ
نہ کاٹی جائے ، اس صورتحال میں آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے کہ
1. کیا ملازم سے ایگریمنٹ سائن کئے بغیر فیکٹریوں کے رائج عرف کی وجہ سے نوٹس پیریڈ کی تنخواہ کاٹنا جائز ہے؟
2. ایسا ملازم جس نے ایگریمنٹ سائن نہیں کیا تھا لیکن مذکورہ عرف کی وجہ سے (نوٹس دیے بغیر چھوڑ کرجانے کی وجہ سے) تنخواہ کاٹی گئی اور ملازم نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، کیا ایسا کرنا جائز تھا؟
3. کیا آئندہ اگر ملازم سے پہلے سے معاہدہ سائن کر والیا جائے کہ ایک ماہ کا نوٹس دیے بغیر چھوڑنےتنخواہ کاٹی جائے گی ، اور اگر کمپنی نے نوٹس دیے بغیر نکال دیا تو کمپنی ایک ماہ کی تنخواہ ادا کرے گی ، تو ایسی تنخواہ کا ٹنا جائز ہوگا، اگر جائز نہیں ہے تو جائز متبادل صورت کیا ہو سکتی ہے جس سے ملازم کو ایسی حرکت پر خاطر خواہ تنبیہ ہو سکے ؟
ملازم نے جتنے دن کام کیا ہو اتنے دن کی تنخواہ دینا ادارے پر شرعاً لازم ہوتا ہے، لہذا کسی ملازم کے نوٹس دیےبغیر نوکری چھوڑنے پر ادارے کا اس کی ایک مہینے کی تنخواہ کاٹ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔
اس کا متبادل یہ ہو سکتا ہے کہ شروع میں ہی ملازم سے اس بات کا معاہدہ کر لیا جائے کہ ملازمت ترک کرنے سے ایک ماہ پہلےاطلاع دینی ہوگی، ورنہ اطلاع کے ایک ماہ بعد تک اصالۃً یا نیابۃً کام کرنالازم ہو گا، اس صورت میں یہ "لاضرر ولا ضرار "کے قاعدہ کےتحت داخل ہو جائے گا۔ (کذافی تبویب دارالعلوم کراچی :33/803)
نیز التزامِ تصدق کی صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تقرر کے وقت خود ملازم یہ التزام کرے کہ اگر وہ ادارہ بغیر اطلاع کے چھوڑے گا تو اتنی رقم خیر کے کاموں میں صدقہ کرے گا، اس کیلئے ادارہ کے اندر ایک الگ شعبہ قائم کر دیا جائے ، جو اس بات کا تعین کرے کہ اس صدقہ کی رقم کو کن وجوہِ بر میں خرچ کیا جائے گا، کمپنی خود اس رقم کوذاتی استعمال میں نہیں لا سکے گی۔
اب کے سوالوں کےمختصر جوابات درج ذیل ہیں :
1. جائز نہیں ہے، جتنے دن کام کیا ہے اس کی تنخواہ دینی ہوگی ۔
2. جائز نہیں تھا، لہذا کام کے دنوں کی تنخواہ اس کو پہنچانی ہوگی یا وہ خوشی سے معاف کرے ۔
3. جائز نہیں ہے ، اور اس کا متبادل اوپر لکھ دیا گیا ہے۔
بحوث في قضايا فقهية معاصرة - القاضي محمد تقي العثماني (38/1)
وأما إذا التزم أنه إن لم يوفه حقه في وقت كذا، فعليه كذا وكذالفلان، أو صدقة للمساكين، فهذا هو محل الخلاف المعقود له هذا الباب، فالمشهور أنه لا يقضي به كما تقدم، وقال ابن دينار يقضي به) (1). وقال قبل ذلك: (وحكايةالباجي الاتفاق على عدم اللزوم فيما إذا كان على وجه اليمين غير مسلمة لوجود الخلاف في ذلك كما تقدم، وكماسيأتي). وإن الحطاب رحمه الله و إن رجح عدم اللزوم، ولكنه قال في آخر الباب: (إذا قلنا إن الالتزام المعلق على فعل الملتزم الذي على وجه اليمين لا يقضي به على المشهور فاعلم أن هذا ما لم يحكم بصحة الالتزام المذكور حاكم. وأماإذا حكم حاكم بصحته أو بلز ومه فقد تعين الحكم به ، لأن الحاكم إذا حكم يقول لزم العمل به وارتفع الخلاف. هذاعلى قول بعض المالكية. أما على أصل الحنفية، فإن الوعد غير لازم في القضاء لكن صرح فقهاء الحنفية بأن (بعض المواعيد قد تجعل الازمة لحاجة الناس).
كتاب المعايير (16/1)
يجوز أن ينص في عقود المداينة، مثل المرابحة، على التزام المدين عند المماطلة بالتصدق بمبلغ أو نسبة بشرط أن يصرف ذلك في وجوه البر بالتنسيق مع هيئة الرقابة الشرعية للمؤسسة.