1. میں ایک اسکول چلاتا ہوں ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹیچر کے لیٹ آنے پر تنخواہ کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ تین دن لیٹ آنے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ یہ جائزہے یا نہیں یہ معاملات ٹیچرز سےپہلے سے طے کرلئے جاتے ہیں ۔
2. دوسرا یہ کہ ہم ٹیچر کو پہلے سے ہی معاہدہ کر لیتے ہیں کہ اگر آپ نے نوکری چھوڑنی ہو تو ایک ماہ کا تحریری نوٹس دیں ۔ اچانک نوکری چھوڑنے پرآخری مہینے کی تنخواہ نہیں دی جائے گیا۔ کیا یہ جائز صورت ہےآگاه کریں۔
3. اسکول کی منتخب کردہ کتابوں کو فروخت کرنے والے بک اسٹور سےمنافع لینا کیسا ہے ۔ یعنی Commission والدین کو ہم مخصوص بک اسٹور Recommend کرتے ہیں۔ جبکہ مکمل پابند نہیں کرتے والدین کسی بھی دوسرے بک اسٹور سے بھی کتابیں خرید سکتے ہیں۔
(1)۔۔۔ واضح رہے کہ تین دن لیٹ آنے کی صورت میں اسکول انتظامیہ اساتذہ کی تنخواہوں سےصرف اُن اوقات کی تنخواہ کاٹ سکتی ہے جن میں وہ کام پر حاضر نہ تھے، اس سے زائد کاٹنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ تعزیر مالی ہے جو راجح قول کے مطابق جائز نہیں، البتہ بروقت حاضری یقینی بنانے کیلئے اگر سکول انتظامیہ اور اساتذہ کے درمیان اس طرح کا معاہدہ ہو جائے کہ اگر کوئی اُستاد ایک مہینے میں تین دن (مثلا)تاخیر سے آئیگا، تو اس مہینے کے بعد جو آنے والا مہینہ ہے اس میں اُستاد کی تنخواہ ایک ہزار (مثلا) کم ہو جائیگی،تو اس کی گنجائش ہے بشر طیکہ دونوں فریق اس پر راضی ہوں۔ (مأخذه التبويب 1995 / 1بتصرف)
(2)۔۔۔ صورت مسئولہ میں ٹیچر ز نے جتنے دن کام کیا ہو اتنے دن کی تنخواہ دینا آپ پر شر عاًلازم ہےلہذا کسی ٹیچر کے نوٹس دیے بغیر نوکری چھوڑنے پر آپ کا آخری مہینے کی تنخواہ کاٹ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اس کے متبادل کے طور پر یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ شروع میں ہی ٹیچر ز سے اس بات کامعاہدہ کر لیا جائے کہ ملازمت ترک کرنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی، ورنہ اطلاع کے ایک ماہ بعدتک اصالۃ یا نیابتہ کام کرنا لازم ہو گا، اس صورت میں یہ" لا ضرر ولا ضرار" کے قاعدہ کے تحت داخل ہو جائے گا ۔ (کذافی التبویب: 33/803)
(3) ۔۔۔ صورت مسئولہ میں اگر کتابیں دکاندار کی ملکیت ہیں اور وہ اسکول کے کورس کی کتابیں خود خرید کر آگے فروخت کرتا ہے، اور اسکول والے صرف گاہک مہیا کرنے پر اس سے کمیشن وصول کرتےہیں تو اس طرح دکاندار سے کمیشن وصول کرنا ان شرائط کے ساتھ جائز ہے کہ گاہکوں کے ساتھ کوئی دھو کہ نہ ہو، کمیشن پہلے سے طے ہو ، طے کیے بغیر کمیشن لینا جائز نہیں ہے، نیز بازاری ریٹ اور معیار کے مطابق کورس فروخت کیا جائے اور بچوں کے والدین اسی دکاندار سے کورس خریدنے پر مجبور نہ ہوں۔ (ماخذہ التبویب بتصرف: 22/1373)
(1)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/60)
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 454)
فلو عمل الأجير الخاص بإنسان عملا لغيره فقصر في عمل مستأجره الأول لاشتغاله بعمل المستأجر الثاني في المدة المستأجر فيها للأول خاصةفللمستأجر الأول أن ينقص من أجر الأجير بقدر تقصيره في عمله.
(2)
ابن ماجه (2/ 784)
عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ضرر ولاضرار»
(3)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (63/6)
مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعواعليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل سلمة. عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام۔۔۔۔والله سبحانه وتعالى اعلم