Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ٹھیکیدار کا مال کی تیاری میں ہونے والےنقصان کو کاریگروں کی باہمی رضامندی سے ان کی اجرت سے پورا کرنا


سوال

عرض یہ ہے کہ میں گارمنٹس کی لائن میں شعبہ پروڈکشن میں بطور ٹھیکیدار کام کرتا ہوں، میرے اس شعبے میں ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ اپنی کمپنی کے لئے کاریگروں کے ذریعے مال تیار کروائے (Manufacturing)، کمپنی کے پاس گارمنٹس سے متعلقہ آرڈرز ہوتے ہیں،جس کو بنانے کے لئے کمپنی بجائے ملازم بھرتی کرنے کے ٹھیکیدار سے کام کرواتی ہے، ٹھیکیدار کاریگروں کا بندوبست کرتا ہے اور ان کےذریعے کمپنی کو مطلوبہ مال تیار کر کے دیتا ہے۔

کمپنی اور ٹھیکیدار کے معاملہ طے کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فریقین اندازہ لگاتے ہیں اس مال کی تیاری کے اوپر کاریگری کی اجرت کتنی آئے گی اور ٹھیکیدار ی کا کمیشن کتنا ہونا چاہئے ؟ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے ٹھیکیدار کمپنی کو بتاتا ہے کہ اس پروڈکٹ کے اوپر کاریگری کی اجرت اتنی آئے گی، یہ اجرت اس پراڈکٹ پر مختلف کاموں کے اعتبار سے مقرر کی جاتی ہے، مثلا اگر ٹی شرٹ تیار کروانی ہو تو اس کی کٹنگ کے پیسےالگ، سلائی کا ریٹ الگ اور اور لاک اور کاج بٹن کا ریٹ الگ بتایا جاتا ہے ، یوں پراڈکٹ کی پوری تیاری کے تمام اخراجات فی درجن کے حساب سے ٹوٹل ہو کر پوری اجرت سامنے آجاتی ہے۔ ہر کام کے علیحدہ ریٹ طے کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے یہ کام مختلف مشینوں پر مختلف کاریگر انجام دیتے ہیں، ہر کام کا علیحدہ علیحدہ ریٹ سامنے آنے سے اس پروڈکٹ کی پوری اجرت اچھی طرح طے کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ریٹ ٹھیکیدار کو کاریگروں کی مد میں آنے والا خرچ سمجھا جاتا ہے جبکہ ٹھیکیدار کے لئے علیحد ہ سے کمیشن مقرر ہوتا ہے۔ مثلا اگر کسی پروڈکٹ پرکاریگری کا کل خرچ 200 روپے بنتے ہیں تو مثلا ٹھیکیدار کا کمیشن 15 روپے ہو گا۔ (ٹھیکیدار کا کمیشن بھی بھاؤ تاؤ کے ذریعے سے طے کیا جاتا ہےاس کے لئے کوئی فیصدی فارمولا مقرر نہیں ہے(

اس تمہید کے بعد دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو مال تیار ہوتا جاتا ہے اس میں کچھ مال میں خرابی وغیرہ بھی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے اجرت میں سے کچھ کٹوتیاں کی جاتی ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے کہ پروڈکٹ کی تیاری کے دوران عام اندازے کے مطابق 2 سے 3 فیصد مال میں کوئی چھوٹی موٹی خرابی سامنے آتی ہے جس کو ٹھیک کروانے کے لئے الگ سے کاریگر رکھنے پڑتے ہیں اور ان کو اجرت ادا کرنی پڑتی ہے، چنانچہ اس مقصد کے لئے ٹھیکیدار مال تیار کرنے والے کاریگروں کی ٹوٹل اجرت میں سے 2 فیصد رقم کا ٹتا ہے، اب چاہے مال زیادہ خراب ہو یا کم، کسی کاریگر نے سارا مال صحیح بنایا ہو یا کسی کاریگر نے 2 فیصد سے زیادہ خرابی کی ہو بہر حال تمام کاریگروں کی تنخواہ سے 2 فیصد بالعموم کاٹ دیا جاتاہے ( تاہم کام کے دوران ٹھیکید ار یا اس کا نمائندہ کاریگروں کی نگرانی رکھتے ہیں تا کہ وہ ہدایات کے مطابق صحیح کام کریں)۔ اسی طرح بالعموم ہرآرڈر کی تیاری میں کچھ پیس ایسے بھی ہوتے ہیں جو بالکل ریجیکٹ ہو جاتے ہیں اور خریدار کو دینے کے قابل نہیں رہتے ہیں تو کمپنی ہر آرڈر کی تیاری میں 3 فیصد اضافی مال تیار کرواتی ہے تاکہ ریجیکٹ پیس کی وجہ سے آرڈر میں ہونے والی کمی کو ان اضافی پیسوں کے ذریعے پورا کیا جاسکے لیکن کمپنی اس اضافی مال کی اجرت اسی مال میں شامل تصور کرتی ہے الگ سے اضافی اجرت ادا نہیں کرتی ہے، تاہم چونکہ کاریگر جتنے پیس تیار کرتے ہیں وہ اس کا پورا حساب بناتے ہیں مثلا اگر کسی کاریگرنے 100 پیس تیار کئے تو وہ سو پورے لکھتا ہے اور مثلا اس کی اجرت فی پیس 100 روپے کے حساب سے 10000 بنے تو ادارہ اس کی اجرت میں سے 3 فیصد کی کٹوتی کر کے اس کو 9700 اجرت دیتاہے۔ یوں ہر کاریگر کی اجرت میں سے کل 5فیصد (3 فیصد اضافی مال کے عوض کمپنی کی طرف سے اور 2 فیصد خرابی دور کرنے کے عوض ٹھیکیدار کی جانب سے ) کٹوتی ہو جاتی ہے اور یہ بات کاریگر کو پہلے سے پتہ ہوتی ہے۔درج بالا پانچ فیصد کٹوتی تو کنفرم ہے لیکن اس کے علاوہ بعض اوقات کچھ اور کٹوتیاں بھی کی جاتی ہیں مثلا بعض اوقات مال میں اندازے سے زیادہ ریجیکشن آنے، چوری ہونے یا کوئی اور معاملہ پیش آنے کی وجہ سے آرڈر کے مطابق مال بھی کچھ ضائع ہو جاتا ہے، ایسی صور تحال میں کمپنی جتنامال ضائع ہو اہو اس کی اجرت کاٹ دیتی ہے۔

درج بالا صور تحال کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1. اگر ٹھیکیدار نے کاریگروں کو پہلے سے ہی مطلع کیا ہو تو اس کے لئے خرابی کو درست کرنے ( کمپنی کی لائن میں اس کو alter سے تعبیرکرتے ہیں) کے عنوان سے کاریگروں کی کل اجرت میں دو فیصد کٹوتی کرنا جائز ہے ؟

2. بعض ٹھیکیداران بجائے فیصد مقرر کر کے کٹوتی کرنے کے مختلف کاریگروں کے کام اور اس میں آنے والی خرابی کے تناسب کو پیش نظر رکھ فکس رقم کی کٹوتی کرتے ہیں، مثلا سلائی کا کام کرنے والے کاریگر کی ماہانہ تنخواہ میں سے 200 ، کاج اور لاک کے کاریگر کےتنخواہ میں سے 400 کاٹ دیئے جاتے ہیں، اگر کاریگر اس پر راضی ہوں تو کیا یہ صورت شرعاً درست ہے ؟

3. کیا درج بالا صور تحال کے پیش نظر کمپنی کے لئے آرڈر سے اضافی تیار کئے گئے 3 فیصد مال کی اجرت کی کٹوتی کرناشرعا ً درست ہے؟

4. جس طرح اوپر بتایا گیا کہ پروڈکٹ کے حتمی تکمیل سے قبل کچھ پیس کہیں ضائع یا چوری ہو جاتے ہیں (اس نقصان میں کبھی ٹھیکیدار کی غلطی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی)، جس کی وجہ سے کاریگروں نے جتنا مال تیار کیا ہوتا ہے اس کی تعداد کم ہو جاتی ہے،ایسے مواقع پر بعض اداروں میں یہ ضابطہ ہوتا ہے کہ کمپنی صرف اس مال کی اجرت ٹھیکیدار کو دیتی ہے جتنا اس کو آخر میں تیار شدہ شکل میں مل جاتا ہے، ایسی صور تحال میں عموما ًٹھیکیدار ضائع شدہ مال کی اجرت کا آدھا نقصان خود برداشت کر لیتے ہیں اور بقیہ آدھاکاریگروں پر تقسیم کر لیتے ہیں، کیا شرعا ًیہ پالیسی درست ہے ؟

5. ہمارے ادارے میں اجرت کا طریقہ کار یہ ہے کہ ٹھیکیدار کاریگر کو کمپنی سے طے شدہ ریٹ کے مطابق ( البتہ درج بالا کٹوتیاں ہوتی ہیں) اجرت دیتا ہے، تاہم بعض اوقات کسی پروڈکٹ کے حوالے کمپنی ریٹ کم دیتی ہے جس پر کاریگر راضی نہیں ہوتے تو ٹھیکیداراپنے کمیشن میں ایک دورو پے شامل کر کے کاریگر کو اضافی اجرت دے دیتا ہے اور بعض اوقات کسی پروڈکٹ کا ریٹ اچھامل جاتا ہےتو ٹھیکیدار اس میں سے ایک دو روپے اپنے لئے بھی رکھ لیتے ہیں، کیا ٹھیکیدار کے لئے اس ساری صور تحال میں کمپنی کی طرف سے کام کےمختص شد ہ ریٹ میں اس طرح کی کمی بیشی کرنا درست ہے؟

جواب

(1،2،3)۔۔۔ اگر ٹھیکیدار کاریگروں کے ساتھ اجارے کا معاملہ کرتے وقت ہی سوال میں مذکورہ کٹوتیوں کی تصریح کر دے اور کاریگر بھی اس پر راضی ہوں تو اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے۔

(4)۔۔۔ مذکورہ صورت میں کاریگروں نے جب آرڈر کے مطابق پورا مال تیار کر لیا تو وہ اجرت کے حقدار بن گئے ، اس کے بعد اگر ٹھیکیدار کی غفلت اور کوتاہی سے مال ہلاک ہو جائے تو اس کا تاوان بھی ٹھیکیدار پر عائد کر نادرست ہے، کاریگروں پر تاوان ڈالناشر عاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر کاریگر کی غلطی سے نقصان ہو تو اس کا ضمان کاریگر پر لگانا درست ہے، کیونکہ کاریگراجیر ِعام کے حکم میں ہے۔

(5)۔۔۔ اگر کمپنی کی طرف سے اجرت میں کمی بیشی کرنے کی ممانعت نہ ہو ، تو کاریگروں کی رضامندی سے کسی بھی رقم کو بطور اجرت طے کر سکتے ہیں۔

(1،2،3)
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 59)
قال: "ويجوز للمشتري أن يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد للمشتري في المبيع، ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجمیع ذلك " فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا.

(4،5)
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 231)
باب الأجر متى يستحق قال: "الأجرة لا تحب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل،أو بالتعجيل من غير شرط، أو باستيفاء المعقود عليه". ولنا أن العقدينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع على ما بينا، والعقد معاوضة،ومن قضيتها المساواة، فمن ضرورة التراخي في جانب المنفعة التراخي في البدل الآخر. وإذا استوق المنفعة يثبت الملك في الأجر لتحقق التسوية.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (19/8)
(يفسد الإجارة الشرط) قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة؛لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لايقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة.

الدر المختار (6 / 66)
(و) يضمن (ما هلك بعمله كتخريق الثوب من دقه وزلق الحمال وغرق السفينة)من مده جاوز المعتاد أم لا.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (65/6)
اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إماأن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهماوقال بعضهم: قول أبي حنيفة قول عطاءوطاوس وهما من كبار التابعين، وقولهما قول عمر وعلي وبه يفتي احتشاما لعمروعلي صيانة لأموال الناس والله أعلم .اهـ. وفي التبيين: وبقولهما يفتى لتغيرأحوال الناس، وبه يحصل صيانة أموالهم اه.

أبحاث هيئة كبار العلماء (1/ 280)
ويمكننا على ضوء ما تقدم من تقسيم الشروط في العقود إلى: صحيح وفاسدأن ننظر هل الشرط الجزائي من الشروط الصحيحة في العقود من الفاسدة ؟ ........ وعلى هذا يمكن أن يقال: إن الشرط الجزائي من مصلحةالعقد؛ لأنه حافز لمن شرط عليه أن ينجز لصاحب الشرط حقه ومساعد له على الوفاء بشرطه فكان شبيها باشتراط الرهن والكفيل في الوفاء لصاحب الشرط بشرطه، وإذن يصح الشرط ويلزم الوفاء به، فإن لم يف وتعذر استدراك ما فات تعين لمن اشترط شرطا جزائيا الأرش..... والله سبحانه وتعالى اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2420/90 المصباح : MCS:001