عرض یہ ہے کہ میں گارمنٹس کی لائن میں شعبہ پروڈکشن میں بطور ٹھیکیدار کام کرتا ہوں، میرے اس شعبے میں ٹھیکیدار کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمپنی کے لئے کاریگروں کے ذریعے مال تیار کروائے (Manufacturing)کمپنی کے پاس گارمنٹس سے متعلقہ آرڈرز ہوتے ہیں، جس کو بنانے کے لئے کمپنی بجائے خود ملازم بھرتی کرنے کےٹھیکیدار سے کام کرواتی ہے، ٹھیکیدار کمپنی کی مشینری اور عمارت اور دیگر ضروری چیزیں استعمال کر کے مطلوبہ مال تیارکر کے دیتا ہے گویا ٹھیکیدار محض کاریگروں کا بندوبست کرتا ہے اور ان کے ذریعے اپنی نگرانی میں مال تیار کرواتا ہے۔
کمپنی اور ٹھیکیدار کے معاملہ طے کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فریقین اندازہ لگاتے ہیں کہ اس مال کی تیاری کےاو پر کاریگری کی اجرت کتنی آئے گی اور ٹھیکیداری کا کمیشن کتنا ہونا چاہئے؟ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے ٹھیکیدار کمپنی کوبتاتا ہے کہ اس پروڈکٹ کے اوپر کاریگری کی اجرت اتنی آئے گی، یہ اجرت اس پراڈکٹ پر مختلف کاموں کے اعتبارسے مقرر کی جاتی ہے، مثلا اگر ٹی شرٹ تیار کروانا ہو تو اس کی کٹنگ کے پیسے الگ، سلائی کا ریٹ الگ اور اور لاک اور کاج بٹن کاریٹ الگ بتایا جاتا ہے، یوں پراڈکٹ کی پوری تیاری کے تمام اخراجات فی درجن کے حساب سے ٹوٹل ہو کر پوری اجرت سامنے آجاتی ہے۔ ہر کام کے علیحد ہ ریٹ طے کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے یہ کام مختلف مشینوں پر مختلف کار دیگر انجام دیتے ہیں، ہر کام کا علیحدہ علیحدہ ریٹ سامنے آنے سے اس پروڈکٹ کی پوری اجرت اچھی طرح طے کرناآسان ہو جاتا ہے۔ اس ریٹ سےٹھیکیدار کو کاریگروں کے مد میں آنے والاخرچ سمجھ آ جاتا ہے جبکہ ٹھیکیدار کے لئے علیحدہ سے کمیشن مقرر ہوتا ہے۔ مثلا اگر کسی پروڈکٹ پر کاریگری کا کل خرچ 200 روپے بنتے ہیں تو مثلا ٹھیکیدار کا کمیشن 15روپے ہو گا۔ (ٹھیکیدار کا کمیشن بھی بھاؤ تاؤ کے ذریعے سے طے کیا جاتا ہے اس کے لئے کوئی فیصدی فارمولا مقرر نہیں ہے)
کمپنی اور ٹھیکیدار جب کسی ایک ریٹ پر اتفاق کر لیتے ہیں تو وہ ریٹ اس پروڈکٹ کے آرٹیکل نمبر کے اعتبار سے آئندہ کے لئے بھی فکس ہو جاتا ہے، اور آئندہ جب اس طرح کا مال آتا ہے تو خود بخود وہی ریٹ طے سمجھا جاتا ہے البتہ اگرٹھیکیدار کا مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے اس پر کام کرنا مشکل ہورہا ہو تو وہ دوبارہ کمپنی کے ساتھ اس ریٹ پر بات چیت کےذریعے اضافے کروا دیتے ہیں۔
اب ہر فیکٹری میں کام اور اس پر ملنے والے ریٹ کی نوعیتیں مختلف ہوتی ہیں چنانچہ اس اعتبار سے ٹھیکیدار اور کاریگروں کے مابین معاملات کی مختلف صورتیں رائج ہیں،
1) کہیں پر تو کمپنی کی طرف سے دیا گیا کاریگری ریٹ پورا کا پوراکاریگروں کو دیا جاتا ہے۔
2) کہیں اس میں سے مختلف قسم کی کٹوتیاں کی جاتی ہیں ۔
3) اور کہیں ٹھیکیدار کاریگری ریٹ کوبنیاد نہیں بنایا جاتا بلکہ کام کی نوعیت اور اپنے نفع کو پیش نظر رکھ از خود ریٹ مقرر کردیاجاتا ہے، اس تیسری صورت میں عموماًٹھیکیدار کاریگری کی اجرت میں سے بھی کچھ حصہ خود ر کھتے ہیں۔
ہمارے یہاں ٹھیکیدار کمپنی کی طرف سے کاریگری ریٹ کی پابندی نہیں کرتا ہے بلکہ تیسری صورت پر عمل کرتاہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بطور ٹھیکیدار ہمیں جو کمیشن ملتا ہے وہ کام کی نوعیت کے اعتبار سے بہت کم بنتا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے خرچے پورے کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ کام کے لئے کاریگر مہیا کرنا اور بر وقت کام کروانا اور صحیح کام کروا کے دینا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے ، جس کے لئے صحیح کاریگروں کا بروقت میسر ہونا بہت ضروری ہے، چنانچہ بعض اوقات مجبورا ًکمپنی کی طرف سے بتائے گئے ریٹ سے زیادہ بھی دیتے ہیں جو ہم اپنی جیب سےدیتے ہیں، کمپنی اس کی ذمہ داری نہیں لیتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر کاریگر ہمارے پاس کام کرنے کے لئے ایڈوانس پیسوں کا تقاضہ کرتے ہیں اور اگر ہم ان کا تقاضہ پورا نہ کریں تو وہ دوسری جگہ کام پر چلے جاتے ہیں، اور عموماً یہ ایڈوانس ٹھیکیدار برداشت کرتا ہے)
دوسری طرف کمپنی ٹھیکیدار کا کمیشن بڑھانے کی گنجائش نہیں رکھتی، کمیشن کی کمی کی وجہ سے کمپنی نے بطور تعاون ٹھیکیداران کے لئے 15 ہزار روپے سیلری مقرر کر دی تاہم وہ بھی ناکافی ہے، مجبورا ًٹھیکیداراپنے کمیشن کے علاوہ کاریگری کے تخمینہ کی گئی اجرت میں سے کچھ حصہ رکھتا ہے۔ اس کے لئے کچھ ٹھیکیدار تو کاریگروں کو بتاتے ہی نہیں ہیں جبکہ کچھ ٹھیکیدار یہ کرتے ہیں کہ کاریگروں کو کمپنی کا ریٹ بتا تو دیتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ جو اجرت آپ کی بنے گی اس میں سے دس پر سنٹ مثلا ًٹھیکیدار کے ہوں گے ، اکثر و بیشتر یہ معاملہ کمپنی کےعلم میں ہوتا ہے لیکن وہ اس پر یا تو خاموشی اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں یا صراحتاً اجازت دے دیتے ہیں جبکہ بعض اوقات کمپنی کے علم میں لائے بغیر بھی یہ کام ہوتا ہے۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ عملاًٹھیکہ پر کام لینے والی کمپنیوں کی اکثریت میں لیبر کا تمام تر معاملہ ٹھیکیدار کی صوابدید پرہوتا ہے، لیبر سے کمپنی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان کی ماہانہ اجرت کتنی بن رہی ہے، کمپنی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، اگربالفرض ٹھیکیدار کمپنی سے رقم لے کر ملازمین کو نہ دے اور بھاگ جائے تب بھی کمپنی ذمہ دار نہیں ہوتی۔
حکومت کےقانون کے مطابق کمپنی میں کام کرنے والی لیبر چاہے وہ ٹھیکہ پر ہو یا تنخواہ پر ان کی کم از کم اجرت (جو کہ آج کل 25000روپے ہے) پوری کر کے دینا کمپنی کی ذمہ داری ہے اسی طرح کمپنی کی طرف سے تمام ملازمین کو سالانہ بونس بھی دیا جائے گا۔ لیکن ٹھیکہ والی لیبر کے حوالے سے کمپنیوں کے لئے عملا اس پر عمل کرنا بہت ہی زیادہ مشکل ہوتا ہے لہذااداروں میں اس پر عام طور پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔
درج بالا تمام تر صور تحال کے پیش نظر ہم چاہتے ہیں کہ کاریگروں اور ٹھیکیداروں کے درمیان ہر قسم کی بد گمانیوں اوراختلافات کا خاتمہ اور شریعت کے مطابق تصفیہ ہو سکے اس حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1. کمپنی کی طرف سے کاریگری کے لئے مختص شدہ ریٹ کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا ٹھیکیدار اس میں سے کچھ حصہ اپنے لئے رکھ سکتا ہے، کیا اس سلسلے میں ادارے کی طرف سے ٹھیکیدار کو صراحتا ًاجازت لینا ضروری ہے ؟ یاادارے کے محض علم میں ہونا کافی ہے؟
2. اگر کہیں کسی ادارے میں مالکان کی طرف سے ٹھیکیدار کے اس عمل کو صحیح نہ سمجھا جائے بلکہ وہ چاہتے ہوں کہ ہماری طرف سے مقرر کیا گیا پورا ریٹ کاریگر کو ملنا چاہئے، اور کاریگر کے ساتھ اجرت کے معاملے میں ظلم اور حق تلفی نہ ہواس بات کو وہ ٹھیکیدار سے بھی کہتے ہیں لیکن کام چلانے کی غرض سے ٹھیکیدار پر زیادہ سختی نہیں کرتے، تو ایسی صورت میں ٹھیکیدار کے لئے کاریگری ریٹ میں سے اضافی رقم لینے کا کیا حکم ہو گا؟
3. جن اداروں میں کاریگروں کو کاریگری ریٹ کے مطابق اجرت دی جاتی ہے وہاں ہر پروڈکٹ کی کاریگری اجرت /ریٹ لسٹ نوٹس بورڈ وغیرہ پر آویزاں کیا جاتا ہے، لیکن جن اداروں میں ٹھیکیدار کاریگری ریٹ کے مطابق اجرت نہیں دیتے وہاں عموماً ریٹ لسٹ کو مخفی رکھا جاتا ہے، اس میں مصلحت یہ ہوتی ہے کہ گار منٹس اداروں میں کاریگر ایک جگہ زیادہ عرصے کام نہیں کرتے بلکہ ادارہ تبدیل کرتے رہتے ہیں لہذا ریٹ سامنے آنے کے بعد ہر ہرکاریگر کو مطمئن کرنا ایک مشکل کام ہو گا کیونکہ ٹھیکیدار کبھی کسی کام کا معاوضہ اصل ریٹ سے بھی زیادہ دے رہا ہوتاہے اور کہیں اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے اصل ریٹ سے کافی کم بھی دیتا ہے۔ لیکن نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مفاد پرست ٹھیکیدار خوب غبن کا ارتکاب کرے گا۔ ریٹ ظاہر کرنے یا مخفی رکھنے کے حوالے سے دونوں پہلوؤں کوسامنے رکھتے ہوئے کمپنی انتظامیہ کو کیا لائحہ عمل / پالیسی بنانی چاہئے جس میں فریقین کے مصالح کی رعایت ہو سکے،نیز یہ بھی بتائیے کہ ریٹ لسٹ ظاہر کرنا یا نہ کرنا محض ٹھیکیدار کی صوابدید ہے یا اس سلسلے میں ادارے کی رائے کااعتبار ہو گا؟
4. کاریگروں سے جو مال تیار کر وایا جاتاہے اس کا ریکارڈ ادارہ رکھتا ہے اور کاریگر کو بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جو کام کرتا جائےاس کو اپنے پاس نوٹ کرتا جائے تاکہ ہر کاریگر کی اجرت کا حساب کتاب صحیح اور ممیز طور پر کیا جاسکے لیکن بعض اوقات کچھ صورتیں ایسی پیش آتی ہیں کہ جس میں یہ تمیز مشکل ہو جاتی ہے ( یہ صورت زیادہ تر وہاں پیش آتی ہےجہاں عموما ًکاریگر کمپنی ہدایات کے مطابق حساب نوٹ کرنے میں کو تاہی کر جاتے ہیں) اور اگر اس صورت میں کوئی نقصان ہو تو ٹھیکید ار اس کو تمام متعلقہ کاریگروں پر برابر تقسیم کر دیتا ہے، مثلا پانچ کاریگروں نے مل کر 500 پیس تیارکئے اور اس میں سے 50 پیس خراب نکلے ، اب اگر پتہ نہ چل رہا ہو کہ یہ کس کاریگر کی غفلت ہے تو ان 50 پیسوں کی اجرت کی کٹوتی تمام پانچ کاریگروں پر برابر تقسیم کر دی جاتی ہے، اسی طرح بعض اوقات 500 پیس کا کام ہے اور ہر ہرکاریگر جتنا کام کرتا جاتا ہے اپنے پاس نوٹ کرتا جاتا ہے، آخر میں جب ٹوٹل کیا گیا تو ان کے حساب کے مطابق 520پیس بنے حالانکہ حقیقت میں 500 پیس ہوتے ہیں، گویا کسی کاریگر نے غلط طور پر زیادہ لکھا ہوتا ہے، اس صورت میں ٹھیکیدار پہلے کوشش کرتا ہے کہ اس شخص کا پتہ چل جائے لیکن اگر پتہ نہ چل سکے (بعض ٹھیکیدار ایسی صورت میں ممکن ہونے کے باوجود تحقیق کرنے میں کوتاہی بھی کرتے ہیں کہ ہمارا ٹائم ضائع ہوتا ہے) تو وہ ان اضافی 20 پیس کی اجرت کی کٹوتی سب پر تقسیم کر دیتا ہے، کیا ایسی صور تحال میں نقصان سب پر تقسیم کرنا درست ہو گا؟
سوال نمبر (4) کے بارے میں وضاحت لی گئی کہ اس کام کا عملی طریقہ کیا ہوتا ہے، تو مندرجہ ذیل وضاحت مستفتی کی طرف سے کی گئی:
اس کا عملی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کا کام کرنے والے بہت سے کاریگر ایک جگہ پر کام کرتے ہیں،ہر کاریگر جو مال تیار کرتا ہے اس کو علیحدہ رکھتا ہے اور اس کا حساب اپنے پاس لکھتا ہے، پھر وہ اپنا مال ٹھیکیدار کے پاس جمع کرواتا ہے، ٹھیکیدار دوبارہ اس کی گنتی کرتا ہے اور اس کو چیک بھی کرتا ہے کہ آیا کوئی مال خراب تو نہیں ہے، اور وہ بھی اپنے پاس حساب درج کرتا ہے۔
اسی طرح ہر کاریگر ٹھیکیدار کے پاس اپنا تیار کردہ مال جمع کرواتا ہے اور ٹھیکیدار اس کی گنتی وغیرہ کر کے سارے مال کو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے۔ پھر جب مال کمپنی کے حوالہ کرنے کا وقت آتا ہے تو اس سارےجمع شدہ مال کی دوبارہ گنتی ہوتی ہے، پھر یہ مال کمپنی کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار اس دوبارہ گنتی اور پہلے جو گنتی کی گئی تھی اس میں فرق آجاتا ہے ، یہ فرق کبھی اضافہ کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی کمی کی صورت میں، اور بعض اوقات اس گنتی میں خراب مال بھی نکل آتا ہے جو پہلے نظر نہیں آیا ہوتا، یا کمپنی کو مال حوالہ کرنے کے بعد کمپنی کی طرف سے خراب مال واپس آ جاتا ہے، چونکہ اب مال اکٹھا ہو چکا ہوتا ہے اس لئے اب یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ حساب کتاب میں غلطی کس کاریگر سے ہوئی ہے یا مال کس کاریگر نے خراب کیا ہے، تو ٹھیکیدار اضافی مال کی اجرت سب کاریگروں میں تقسیم کر دیتا ہے اور کمی یامال خراب ہونے کی صورت میں تمام کاریگروں سے کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس اضافی اجرت اور کٹوتی کےحوالہ سے کاریگروں سے کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں کیا جاتا، البتہ تمام کاریگر اس طریقہ پر عملی طور پر راضی ہوتے ہیں۔
(1،2)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں اگر ٹھیکیدار کمپنی اور کاریگروں کے درمیان محض رابطہ کار نہیں ہوتے ، بلکہ کمپنی کا مطلوبہ سامان تیار کروا کر کمپنی کو دینے کی تمام تر ذمہ داری ٹھیکیدار کی ہوتی ہے، اور کاریگر سے کمپنی کا کوئی معاملہ نہیں ہو تا بلکہ ٹھیکیدار سے ہی معاملہ ہوتا ہو تو کمپنی اور ٹھیکیدار کے درمیان جو اجرت طے ہوتی ہے وہ ساری اجرت ٹھیکیدار کی سمجھی جائے گی، جس کے بدلہ وہ کمپنی کو مطلوبہ سامان تیار کروا کر دینے کا پابند ہو گا۔ اس صورت میں کاریگری کے ریٹ کو کاریگر کی اجرت نہیں سمجھا جائے گا بلکہ جب ٹھیکیدار آگے کاریگروں کے ساتھ اجارہ کا معاملہ کرے گا تو ٹھیکیدار اور کاریگر باہمی رضامندی سے کوئی بھی اجرت طے کر سکتے ہیں، جو کہ کمپنی کی طرف سے مقرر کیےگئے کاریگری ریٹ سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے، بشر طیکہ اس میں کسی قانون کی خلاف ورزی لازم نہ آئے اور حکومت کی کم از کم مقررہ اجرت سے کمی لازم نہ آئے۔ نیز اس کے لئے ادارہ کی اجازت یا ادارہ کو علم ہوناضروری نہیں ہے۔ البتہ ایک مرتبہ جب کسی کاریگر کی اجرت مقرر ہو گئی تو اس کے بعد ٹھیکیدار کے لئے کاریگر کی صریح رضامندی کے بغیرمقررہ اجرت سے کٹوتی کرنا جائز نہیں ہوگا، نیز اگر حکومت کی طرف سے کاریگر کی کم سے کم اجرت طے ہو تو اس کی پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔
لیکن اگر کوئی ادارہ یہ چاہتا ہے کہ کاریگر کو وہی اجرت ملے جو ادارہ کی طرف سے طے کی گئی ہے، تو ادارہ اگرٹھیکیدار کے ساتھ اس طرح معاملہ کرے کہ ٹھیکیدار کو صرف کاریگر مہیا کرنے کے لئے رابطہ کار بنائے، جس پر وہ اس ٹھیکیدار کو اجرت دے اور ٹھیکیدار کو اس بات کا پابند بنائے کہ کاریگری کا جو ریٹ کمپنی کی طرف سے مقرر کیا گیا ہےاس کے مطابق کاریگروں کو اجرت دے۔
اس صورت میں ٹھیکیدار کمپنی کا محض وکیل ہو گا، اور اس کے لئے کمپنی کی صراحتاً اجازت کے بغیر کاریگروں کی اجرت طے شدہ ریٹ سے کم مقرر کرنا درست نہیں ہو گا۔ تاہم اس صورت میں اگر ٹھیکیدار کمپنی کی طرف سے ملنے والے پیسے لے کر بھاگ جائے تو کمپنی کاریگروں کو ان کی اجرت دینے کی پابندہوگی۔
(3)۔۔۔ اگر کاریگروں کا معاملہ ٹھیکیداروں کے ساتھ ہوتا ہے کمپنی کے ساتھ نہیں ہو تا تو ٹھیکیدار کاریگری کی ریٹ لسٹ کسی مصلحت کی وجہ سے مخفی رکھ کر کاریگر کے ساتھ باہمی رضامندی سے کوئی اجرت مقرر کر لیتا ہے تو اس کایہ معاملہ جائز ہو گا، البتہ کاریگروں کے لئے حکومت کی طرف سے جو کم سے کم اجرت طے ہے، اجرت مقرر کرنے میں اس کی رعایت کرناضروری ہے، نیز معاملہ کرتے وقت کاریگر کو اشارۃً بھی یہ نہ کہا جائے کہ یہ وہی اجرت ہے جو کمپنی کی طرف سے کاریگر کے لئے مقرر کی گئی، یہ دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ ٹھیکیدار کو چاہئے کہ لوگوں کو کاریگروں کی اجرت حتی الامکان کاریگری ریٹ سے کم نہ کرے اور کسی وقت اگر ٹھیکیدار بعض کاریگروں کو زیادہ اجرت دینے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کی تلافی کے لئے کمپنی سے بات کرنی چاہئے نہ کہ دیگر کاریگروں کی اجرت میں کمی کر کے اس کی تلافی کی جائے، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
لیکن اگر ٹھیکیدار کمپنی کے لئے محض رابطہ کار کے طور پر کام کرے، اور کاریگروں کا اصل معاملہ کمپنی کےساتھ ہو تو ٹھیکیدار کے لئے ریٹ لسٹ لگانا اور اس کی پابندی کرناضروری ہو گا۔
چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کا حریف ہوں گا:
(1) وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد و پیمان کیا پھر دھو کہ دیا۔
(2) وہ شخص جس نے آزاد آدمی کو بیچا اور اس کی رقم خرچ کر دی۔
(3) وہ شخص جس نےکسی کو ملازمت پر رکھا اور ملازم سے کام پورا کر وایا لیکن اس کو اجرت نہیں دی۔
(4)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور وضاحت کے مطابق جب ایک دفعہ کاریگر نے اپنا تیار کردہ مال ٹھیکیدارکے حوالہ کر دیا اور ٹھیکیدار نے اس کو چیک بھی کر لیا اور اس کا حساب بھی درج کر لیا تو اب کاریگر کا ذمہ اس مال سےختم ہو گیا، اب اس مال کی ذمہ داری ٹھیکیدار کی ہے، اس کے بعد اگر حساب میں کمی بیشی ہوتی ہے یا خراب مال نکل آتاہے تو جب تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو ، کسی کاریگر کو اس کا ذمہ دار نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ اس نقصان کا ضامن ٹھیکیدارہو گا۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(1،2)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (201/4):
أما الأول: فهو ثبوت الملك في المنفعة للمستأجر، وثبوت الملك في الأجرة المسماة للآجر؛ لأنها عقد معاوضة إذ هي بيع ا المنفعة، والبيع عقد معاوضة، فيقتضي ثبوت الملك في العوضين.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (572):
(وإن أطلق كان له )أي للاجير أن يستأجر غيره.
(3)
صحيح البخاري (2/ 776)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: قَالَ اللهُ: «ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ.»
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (420)
(وتلقى الجلب) بمعنى المجلوب أو الجالب، وهذا (إذ كان يضر بأهل البلد أو يلبس السعر) على الواردين لعدم علمهم به، فيكره للضرر والغرر (أما إذا انتفيا فلا) يكره.